اسم گرامی:

محمد خواجہ شریف
لقب : عمدۃ المحدثین، اشرف العلمائ، محدث ملت


 عہدے :

داروغہ جامعہ نظامیہ و مؤدب،مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ، نائب شیخ الادب،شیخ الادب، معتمد مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ،نائب شیخ الحدیث، شیخ الحدیث،مدیر مرکز البحوث الاسلامیہ جامعہ نظامیہ۔


پیدائش :

۱۵؍ شوال المکرم ۱۳۵۹ ھ مطابق ۱۴؍ جنوری ۱۹۴۰ء ، قریہ پوٹلہ پلی، ضلع شاد نگر، ریاست آندھراپردیش( موجودہ تلنگانہ )کے ایک علمی خاندان میںہوئی ۔


والدین کریمین :

والد بزرگوارکا نام حضرت محمد شہاب الدین ابن عباس علی رحمۃ اللہ علیہما جو زبان تلگو کے پنڈت تھے اور ان کا نسب حضرت نبی اکرم ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت دائی حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے ،والد بزرگوارکی وفات ۱۳؍ ذوالحجہ ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۴؍ مارچ ۱۹۶۷ء بروز جمعہ ہوئی،آ پ ؒ کے جد امجد حضرت عباس علی رحمۃ اللہ علیہ خدمت خلق میں مشہور تھے۔

آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کانام حضرت آمنہ  ؒکانسب امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے،آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات ۲۳؍ جمادی الاولی ۱۴۱۵ ھ مطابق ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء کو ہوئی،آپ ؒ کے والدہ کے ساتویں پشت کے نانا حضرت سکندر علی درویش ؒ ہیں۔جن کا مزار مبارک قر یہ پو ٹلہ پلی میں مر جع خلا ئق ہے ۔.


نام میں شریف کی وجہ :

دکن میں یہ مشہور ہے جس مولود کی والدہ سادات (بنوہاشم) میں سے ہوںاور والد’’ شیخ ‘‘ہوں تو اس مولود کو اکراماً ’’شریف‘‘ کہا جاتا ہے۔


حلیہ :

کھڑا چہرہ، سفیدی مائل بہ سرخ، میانہ قد، انتہائی دبلے،سرپر سفید عمامہ 5¼ میٹرکا، شیروانی، سفید سلیم شاہی پاجامہ،چلن بالکل میانہ، قدم تیز تیز آگے بڑھاتے ،جلسہ جوتا پہنتے ہیں۔


آغاز تعلیم :

آپؒ کے وطن پوٹلہ پلی میں ایک پہاڑ پر ایک بزرگ زلفاں والے مولوی صاحب کے نام سے مشہور تھے، ابتداء میں انہی کے پاس بغدادی قاعدہ مکمل کیا، پھرپولیس ایکشن کے بعدتقربیاً آٹھ برس کی عمر میں والد بزرگوار کے ہمراہ حیدرآباد تشریف لائے، گوشہ محل کے ایک تحتانیہ مدرسہ (رسالہ عبداللہ) میں داخلہ ہوا، چہارم سے تعلیم حاصل کئے، پھردس برس کی عمر میں آپ کے برادر کلاں حضرت مولانا محمدشریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ نظامیہ میں سنہ ۱۹۵۰ء کو جماعت چہارم میں داخلہ کروایا۔    جامعہ نظامیہ دارالاقامہ کے کمرہ نمبر ۱۳ میں جماعت ساتھیوں تھے آپ ؒکے ساتھ میں (۱) مولانا محمد سلطان محی الدینؒ سابق صدر شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ (۲)مولانا حافظ محبوب علیؒ سابق مصحح دائرۃ المعارف العثمانیہ (۳) مولانا محمد برہانؒ (۴) مولانا عباس شریفؒ وغیرہ موجود تھے۔آپؒ اور تمام ہم جماعت ساتھی پنجگانہ نماز باجماعت ادا کرنے کا خاص اہتمام کرتے، بعد نماز فجر تلاوت قرآن مجید روز مرہ کے معمولات میں شامل تھااور یہی عمل استقامت کے ساتھ عمر کے آخر حصہ تک جاری رہا،اللہ نے بے پناہ حافظہ عطا فرمایا، طالب علمی کے ہر مرحلہ میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ چاہے وہ کتب بینی ہویا مطالعہ یا پھر ریاضت بدنی ہو۔

نظامیہ کے جمعیۃالطلبہ کے سکریٹری کے طور پر آپؒنے جامعہ کے استحکام کیلئے ہرلمحہ فکرمند و کوشاں رہے۔ جامعہ کی ترقی کیلئے ہرممکنہ کوشش کرتے۔ معونت ایزدی بھی شامل حال رہتی اور کامیابی قدم چومتی تھی۔


نکاح :

آپ ؒکانکاح  سنہ ۱۹۶۳ء محلہ آغاپورہ کے نماز میدان میں آپ کی مامو زاد بہن سیدہ نفیس النساء بیگم صاحبہ سے ہوا،خطبہ نکاح حضرت مولانا مفتی عبد الحمید صاحب قبلہؒ نے پڑھا،ضیافت میں ۱۷ بکرے ذبح کئے گئے۔


اولاد :

اللہ نے آپ ؒ کو نو(۹) صاحبزادیاں اور ایک(۱) صاحبزادہ(جن کا نام آپ نے اپنے مشفق ومربی حضرت مولانا حافظ محمد ولی اللہ  ؒ شیح المعقولات کے نام کی نسبت محمد ولی اللہ شریف ادریس رکھا) عطافر مائے ،دو(۲) صاحبزادیاں بچپن ہی میں وفات پاگئیں، اور ایک صاحبزادی کا انتقال 10؍جولائی 2012ء کو ہوا ،نماز جنازہ جا مع مسجد حکیم میر وزیر علی میں ادا کی گئی،تدفین جامع مسجد فلک نما کے قبرستان میں عمل میں آئی۔


محل مبارک  و اولاد کی تعلیم کے لئے خصوصی توجہ :

حضرت نےجہاںاپنی اولاد کو علوم دینیہ وعلوم عصریہ سے آراستہ فرمایا  وہیں آپؒکی محل مبارک کو بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع عنایت فرمایا ،جو قابل ذکر ہیں۔ جامعہ نظامیہ : قراء ت امام عاصم کوفیؒ،مولوی تا کامل ۔جامعہ عثمانیہ: بی۔اے۔ (اردو،ہندی) ایم ۔اے، ایم۔او ۔ایل،ایم ۔اے۔ ایل، ایم۔فل، پی۔ایچ۔ڈی۔ جامعہ ایفلو: پی۔جی۔ڈی۔ٹی۔اے۔شاستری بھون: (دہلی) ایم۔فل۔ جامعہ علی گڑھ:اردو کامل۔


آغاز تدریس :

دارالعلوم مؤتمر العلماء مغل گدہ محبوب نگر میں ماہانہ 150مشاہرہ پر خدمت جاری تھی لیکن سنہ ۱۹۶۶ء میں حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب قبلہؒ سابقہ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے نظامیہ میں شعبہ تدریس میں درخواست دینے کا حکم فرمایا، وجہ یہ تھی کہ حضرت نے آپ کی رپورٹ کی پیش کشی و انتظامی صلاحیتوں کو دیکھا اور بہت خوش ہوئے ،استاذ محترم کے حکم کو بجا لاتے ہوئے آپ نے مادر علمیہ میں تدریسی خدمت کواپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے قبول فرمایا،اولاً آپ کا تقرر مہتمم کتب خانہ کے عظیم منصب کے لئے بمشاہرہ75 روپیہ ہوا، قبل ازیں ایک مدرس نے سرکاری خدمت کے لئے جامعہ نظامیہ سے استعفیٰ دیا تھا، تب حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب قبلہؒ سابقہ شیخ الجامعہ، جامعہ نظامیہ نے یہ تاریخی جملہ فرمایا تھا :’’بعض لوگ بڑی تنخواہ کے لئے جامعہ کی ملازمت کو خیرآباد کہہ رہے ہیں اور بعض لوگ جامعہ کیلئے بڑی تنخواہ کو خیرآباد کہہ رہے ہیں‘‘،طالب علمی کے دور سے ہی آپ ؒ  تدریس کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔ اسی دوران ایک واقعہ یہ ہوا کہ جامع مسجد افضل گنج میں اپنے مشفق استاذ حضرت شیخ الجامعہؒ کے ہمراہ تھے۔ لوگوں سے ملاقاتیں ہورہی تھیں، دوران گفتگو حضرت استاذ محترم نے آپ کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمائے ’’یہ علم حدیث میں بہت مہارت رکھتے ہیں‘‘ اسی وقت آپ یہ عزم مصمم کرچکے کہ اب میںعلوم حدیث حاصل کروں گا،شہر کی ہماہمی میں آپ خلوت نشینی کو تلاش کررہے تھے تاکہ یکسوئی حاصل ہو،اسی دوران آپ نے یہ ارادہ فرمایا کہ وطن سے دور ہوکرہی اسمیں یکسوئی حاصل ہوگی ،بعد ازیں ایک رخصت دے کر سنہ ۱۹۷۱ء میں جامعہ امینیہ دہلی کوچ کرگئے اورعلوم حدیث شریف میں مہارت تامہ حاصل کئے۔ صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث میں حضرت مولانا مشہود الحسن چشتی ؒسے سند حاصل ہوئی، پھر جامعہ نظامیہ میں رجوع بکار ہوئے بعدازاں آپ ؒ کے شوق حدیث سے منصب شیخ الحدیث کے عہدہ جلیلہ تک جلوہ افروز ہوئے اور طلاب علم حدیث کی علمی تشنگی بجھاکر ابدی سعادتوں سے فیضیاب کرتے رہے۔ پروردگار سے دعا ہے کہ اللہ آپ کے علمی وروحانی فیضان سے آپ ؒ کے تلامذہ، مریدین ،معتقدین اور آنے والی نسلوں کو بہرہ مند فرمائے۔ آمین۔


معمولات شب و روز :

: اللہ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے سرفرازفرمایا ہے۔ شب و روز کی مصروفیات، درس و تدریس، گھریلو کام کاج، رشتہ داروں سے ملاقاتیں‘ منتسبین‘مریدین و معتقدین سے ملاقاتیں ان کے مسائل کو سننا اور حل بتانا۔ ان سب کے باوجود بالکل قدرے آرام کرتے،تہجد کے وقت بیدار ہوجاتے، نماز ادا کرتے، فجر میں تمام گھر والوں کو صدا لگاتے ہوئے بیدار کرتے صلاۃ ۔ صلاۃ ۔ صلاۃ ۔ فجر جماعت کے ساتھ ادا فرماتے سخت سردی میں اور طبیعت ناسازہونے کے باوجود جماعت سے نماز اداکرنے کوترجیح دیتے اور وقت نماز ایک نوجوان کی طرح متحرک ہوجاتے، بعد نماز فجرمسجد چمکورہ خلوت میں زجاجۃ المصابیح سے ایک حدیث شریف کی مکمل تشریح فرماتے۔ گھر لوٹنے کے بعد اشراق تک قرآن مجید کی تلاوت فرماتے، اور یہ فرماتے کہ قرآن کو غور کرتے ہوئے پڑھو، اس میں تمہارے ہر مسئلہ کا حل اللہ نے رکھ دیا ہے، اور خود حضرت کی یہ کیفیت ہوتی کہ دوران تلاوت ان آیتوں کا انتخاب فرمالیتے کہ کونسی کونسی آیتیں لوگوں کو ورد کرنے کے لئے دی جائیں،پھر 8 بجے تک استراحت فرماتے،ناشتہ ہلکا پھلکا فرماتے اور8:30بجے جامعہ نظامیہ کلیۃ البنات قاضی پورہ تشریف لے جاتے، کلیۃالبنات سے 10:30یا کبھی 11بجے درس کے بعد گھر تشریف لاتے، یاکبھی المعہد الدینی العربی تشریف لیجاتے انتظامیہ کی نگرانی فرماتے اور پھر چائے نوش فرمانے کے بعد11:30 جامعہ نظامیہ تشریف لیجاتے نمازظہر کے بعد دوپہر گھر تشریف لاتے اور قیلولہ فرمانے کے بعد مطالعہ ،تصنیف و تالیف میں مشغول ہوجاتے اور اکثر یہ فرماتے کہ ’’بابا میں طالب علم ہوں، پڑھنا لکھنا میرا کام ہے‘‘، بعد نماز عصر کچھ دیر مسجد چمکورہ میں بیٹھتے لوگوں سے ملاقات کے بعد گھر تشریف لاتے اور پھر اپنی مصروفیت میں لگ جاتے،گھر تشریف لا نے کے بعد اہل خانہ سے گفتگو فرماتے اور ان کے مسائل کو سنتے اور سلف صالحین کی زندگیوں کے حالات سناتے اور ان کو زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ بتاتے اورہمت افزائی فرماتے،اور بعد مغرب جلسہ ومحافل وغیرہ میں تشریف لیجاتے ،اور روزانہ رات کو سونے سے قبل چھ تسبیحات(تسبیحات فاطمہؓ) آپ کے معمول میں شامل رہے ، ہاتھ میں تسبیح ہوتی اور ورد جاری رہتا ،دلائل الخیرات بھی لا ز ماً آپؒ کے اوراد میں شامل ہوتا،اور سونے سے قبل خاص طورپر دود ھ پیتے۔ اور فرماتے کہ یہ مقوی اور مغزدار مشروب ہے، ہر ماہ کی قمری تاریخ کے اعتبار سے پہلے چہارشبہ کو محفل قصیدہ بردہ شریف منعقد ہوتی،اور دوسرے چہارشبہ کوحلقہ ذکر،بعد ازاں جمعرات کومحفل دلائل الخیرات ہوتی ، جس میں حیدرآباد اور اس کے مضافات سے مریدین و معتقدین شریک ہوکر فیضیاب ہوتے، اسکے علاوہ محفل ذکرو دلائل الخیرات ہر پیر کو کاماٹی پورہ میں واقع حضرت کے دولت کدہ میںمنعقد ہوتی۔


درس حدیث شریف :

علم حدیث شریف سے خاص والہانہ شغف تھا۔  جامعہ نظامیہ میں عرصۂ دراز سے حدیث شریف کے امہات الکتب بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد، مؤطا، نسائی شریف و دیگر کتب کا درس انتہائی فصاحت و بلاغت اور عمدہ اسلوب میں دیتے رہے۔ ’’درس بخاری‘‘ آپ کی پہچان بن گئی ۔


انداز تدریس :

ٓپ کے دروس کا انداز مختصر، جامع و دل نشین ہوتا،مختلف فیہ مسائل میںنہایت معتدل و محقق و غیر جارحانہ تشفی بخش جواب عنایت فرماتے، انداز کلام کی حلاوت و شیرینی دلوں کو موہ لیتی ،جماعت میں حنفی طلبہ کے علاوہ شافعی طلبہ کی بھی معتدبہ تعداد ہمیشہ شریک رہتی ، ہر ایک کے دلائل اور ان کے مستدلات حدیث کی روشنی میں شرح و بسط کے ساتھ بیان فرماتے ، فقہی مسائل میں مسلک حنفی کے وجوہ ترجیح اور ان کے حدیثی مستدلات و مراجع کا ذکر فرماتے ۔ہر باب سے پہلے اس پر بصیرت افروز تبصرہ اور حسب ضرورت رجالِ حدیث پر گفتگو ہوتی ، رُواۃحدیث، صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ نسبت و تعلق میں ازدیاد کا باعث ہوتا ۔


خصوصیات درس بخاری :

اجمالی طور پر خصوصیات درس بخاری شریف زیب قرطاس کئے جارہے ہیں جو ’’فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا‘‘ کے مصداق بارہ  ہیں۔
(۱)ترجمۃ الباب اور احادیث شریفہ میں مطابقت۔(۲)لغاتِ عربیہ کی تحقیق۔(۳)شرحِ ادبی، معانی، بیان و بدیع سے متعلق بحث۔(۴)سند اور رجال سے متعلق ضروری وضاحت۔(۵)اختلاف ائمہ اور ان کے ادلہ کو واضح کرنا۔ (۶)مذہب حنفی کے مُستدِلاَّت اور وُجوہِ ترجیح کو بیان کرنا۔ (۷) اہلسنت کی تائید اور باطل فرقوں کی تردید۔(۸)عصرِحاضر کے نوپید مسائل کا احادیث ِشریفہ سے استنباط اور ان کا حل۔(۹) تمام دنیا کے موجودہ سیاسی، سماجی حالات اور بے سکونی کیفیت سائنسی ترقیات اور مقامی و عالمی سطح پر جنگ و جدال سے متعلق احادیث شریفہ کے اشارات کی وضاحت۔(۱۰)تصوف و تربیت سے متعلق مضامین کا احادیث شریفہ سے استخراج۔(۱۱)رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے آثـار شریفہ کی تعظیم و تکریم اور شعائر ِاسلام کی حرمت و تعظیم ناموس اہل بیت اطہار کا تقدس و صحابہ کرام کی عظمت شان، سلفِ صالحین کا ادب و احترام سے متعلق اُمور کا تذکرہ و ہدایات۔(۱۲)زہد و قناعت کی ترغیب و تشویق حُبِّ نبوی علیٰ صاحبہ الصلوۃ والسلام اور عمل بالسنۃ کی تلقین۔
یہ حضرت ؒ کے درسِ بخاری کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں۔


علمی اسفار :

مکۃ المکرمہ، مدینۃ المنورہ، کویت، جرمن، دبئی، قطر وغیرہ کے سفر فرمائے ،اس کے علاوہ اندرون ملک کئی ریاستوں کے علمی اسفار فرمائے۔

مدینہ منورہ میں محفل ختم بخاری کا اہتمام :

یہ بات جنوبی ہند بلکہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے لئے قابل فخر ہے کہ مولانامحمد خواجہ شریفؒ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ سے بخاری شریف اور شمائل ترمذی کا درس لینے کی غرض سے سعودی عرب کے مختلف مقامات سے عرب علماء کی ایک جماعت رجوع ہوئی۔ مکہ مکرمہ سے درس کا آغاز ہوا اور مدینہ منورہ میں اختتام عمل میں آیا۔ صرف دو ہفتوں کے اندر دو کتابوں(بخاری،شمائل ترمذی)کی تکمیل ہوئی۔ فجر کی نماز کے بعد درس کا سلسلہ شروع ہوتا اور رات میں دس بجے ختم ہوتا۔ درمیان میں نمازوں اور حوائج ضروریہ کے علاوہ کوئی دوسری مصروفیت نہ ہوتی۔ مدینہ منورہ میں لوگ حیران وششدر تھے کہ ایک ہندی عالم سے عرب علما ء بخاری شریف پڑھ رہے ہیں۔حضرت قبلہؒ دوران درس علم و عرفان کے ایسے موتی بکھیر تے کہ علماء مسرورہوجاتے۔ آپ کے چند قابل ذکر شاگردوں کے نام یہ ہیں شیخ منـذر بن محمد مدید وزارت الشئون الإسلامیہ (مدینہ منورہ)شیخ محمد بن احمد حریری پروفیسر ملک عبد العزیز یونیورسٹی (جدہ)شیخ نائف بن حمد عبد اللہ بانی مدرسہ حبیب بن عدی (ریاض) شیخ عمر بن ابراہیم بن عبد اللہ التویجری امین المکتبہ (القصیم) شیخ صالح بن عبد اللہ العثیمی مدیر بحوث الد راسات الإسلامیہ (ریاض) و مدرس مسجد نبوی شریف، ان علماء نے حضرت قبلہ ؒکی تعریف کرتے ہوئے آپؒ کو  جامعہ نظامیہ ہند میں منبع نوروجامع العلوم قرار دیا۔


مدارس کا قیام :

 

 دارالعلوم اننت پور :

: آپؒ نے دین متین کی نشر و اشاعت اور علوم اسلامیہ کو اُمت مسلمہ کے ہر فرد تک پہنچانے اور دعوت و تبلیغ و اصلاح معاشرہ کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا۔ اور ان مقاصد کی تکمیل کرنے اور اس کو روبہ عمل لانے کے لئے مدارس کا قیام بے حد ضروری تھا۔ اور یہ سلسلہ ایک ایسا کامیاب ترین عمل ثابت ہوا کہ جس کے اثرات ماضی، حال اور مستقبل میں نمایاں ہیں۔ انہی میں ایک بڑا کارنامہ دارالعلوم اننت پور کا قیام ہے ۱۹۶۱ء میں اس کی بنیاد رکھی، ابتداء میں ۳ طلبہ سے زیر درخت درس کا آغاز کیا اور الحمدللہ یہ آج کشجرۃ مثمرۃ اپنے زیر سایہ افراد کوعلوم شرعیہ سے آراستہ کررہا ہے، حضرت حکیم محمد حسین صاحب ؒشیح الحدیث صدرتھے۔،مدرسہ کے اخراجات کیلئے ایک اسکیم بنائی تھی کہ ہر دکان اور گھر سے روزانہ دس روپیہ لئے جائیں۔ چند دن بعد طلبہ کو لے کر حیدرآباد منتقل ہوگئے۔

دار العلوم مؤتمر العلماء :

سنہ ۱۹۶۳ء میں مؤتمر العلماء کے نام سے اہل قریہ کی اصلاح ونشر علوم اسلامیہ کی نیت سے ایک مدرسہ قائم کیا،اس کا قیام پہلے شاہ آباد میںہوا اور پھرمغل گدہ محبوب نگر میں صوفی غلام محمد صاحب کی دعوت پر تشریف لے گئے اوراس کو وہاں منتقل فرمائے۔ رفتہ رفتہ طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔،سالانہ جلسہ میں اطراف و اکناف سے لوگ جمع ہوجاتے،شارکین جلسہ طلبہ کے تقاریر سنتے اور محظوظ ہوتے۔اورپھر حضرت مفتی عبد الحمید ؒ کے حکم سے ان طلبہ کو لے کر جامعہ نظامیہ تشریف لائے۔

قندھار :

: (ناندیڑ) میں حضور شیخ الاسلام محمد انوار اللہ فاروقی، بانی جامعہ نظامیہ کے وطن میں ایک مدرسہ قائم فرمایا تھا۔

مجلس انوار علمیہ :

حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحبؒ کی سرپرستی میں مجلس انوارعلمیہ کو قائم فرمایا جس کا مقصد دعوت الی اللہ اور اصلاح معاشرہ تھا۔
علاوہ ازیں بے شمار مکاتب قائم فرمائے۔ کئی مدارس کی سرپرستی فرمائی۔

اللجنۃ العلمیۃ کا قیام :

یہ ادارہ ستر کی دہائی میںمغل پورہ نظام مسکن میں قائم کیا گیا تھا، جس کے ذریعہ کئی مفید کام انجام پائے۔ اسی ادارہ کے تحت نصاب اہل خدمات شرعیہ کا تلگو زبان میں ترجمہ ہوا۔

المعھد الدینی العربی کا قیام :

حضرت علامہ سید طاہر الرضوی ؒصدر الشیوخ جامعہ نظامیہ نے جو حضرت قبلہ کے پیر و مرشد بھی ہیں اور معلم و مشفق بھی، ایک مرتبہ فرمایا تھا ’’کہ آپ کچھ ایسا کریں کہ حیدرآباد کے گھر گھر تک عربی پہنچ جائے‘‘ اسی حکم کو روبہ کار لاتے ہوئے ۱۴۰۵ ھ مطابق ۱۹۸۴میں آپ نے ’’ المعھد الدینی العربی‘‘ کی بنیاد رکھی۔  ابتداء میں دس طلبہ سے اس کا آغاز ہوا۔ اب یہ مدرسہ الحمدللہ قلب شہر شاہ علی بنڈہ میں واقع ہے۔ اس ادارہ کامیڈیم خالص عربی ہے،یہاں پردرجہ تعلیم انٹر میڈیٹ تک ہے(مزید تفصیلات اس ویب سائٹwww.almahad.inسے حاصل کی جاسکتی ہیں)اس ادارہ کی دوشاخیںخواتین کی تعلیم کیلئے (۱)معھد البنات نفیس النساء ،خلوت (۲)معھد البنات رفیق النساء ،ٹولی چوکی قائم کی گئیں جو آپکی محل مبارک حضرت ڈاکٹر سید ہ نفیس النساء بیگم صاحبہ مدظلہا کے زیرنگرانی چل رہی ہیں، طلباء وطالبات ان اداروں میںزیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیںاور ان شاء اللہ ہوتے رہینگے ۔

کلیۃ الدراسات العربیۃ والاسلامیۃ :

اس کالج کا سنہ۲۰۱۷ء میں حضرت قبلہؒ نے آغاز فرمایا اس کے قیام کے وقت مختلف جامعات کے پروفیسرس سے مشاورت کئے اس کا نصاب تیار کیا گیا جو حال اور مستقبل کے چیالنجس کے مد نظرہے،یہاں کا بھی ذریعہ تعلیم عربی ہے، اس کالج کے قیام کا مقصد یہ بھی ہے کہ جو طلبہ وطالبات المعھد میں انٹر میڈیٹ کے بعد مزید آگے پڑھنا چاہتے ہوں تووہ اس کالج میں بی۔اے(عربک اینڈ اسلامک اسٹڈیز) کے بعد سیدھے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے ایم۔اے۔کرسکتے ہیں، یہ کالج’’ مانو‘‘ سے ملحقہ کروانے کی کوشش جاری ہے،علاوہ ازیں مختلف کورسس بھی چلائے جارہے ہیں ۔

عمدۃ المحدثین ریسرچ سنٹر :

اس ریسرچ سنٹر کا قیام ۲۶؍اگسٹ۲۰۱۸ءکو عمل میں آیا ،اس کو حضرت قبلہ کے خادم خاص مولوی محمد طاہر خان خلجی نے آپؒ کے فرمودات اور مکتوبات کوعام کر نے کی خا طر جو امت مسلمہ کے لئے مفید بھی ہیں اور مسلک اہلسنت کے تائید بھی کرتے ہیں اور اس بے سکونی کے ماحول میںایک اعتدال کی راہ ہموارکرنے والے ہیں کو طبع کرنے کی غرض سے حضرت قبلہ ؒ کی سرپرستی ونگرانی میں قائم کیا۔جس کی ویب سائٹ www.mdkhajasharif.com الحمد للہ تین زبانوں میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسی کے تحت ایک Application بھی عنقریب منظر عام پر آئے گا۔اس کے علاوہ مزید کئی مدارس ومکاتب کا قیام آپ نے عمل میں لایا اور کئی مدارس کی سرپرستی بھی فرماچکے ہیں۔

مواعظ حسنہ :

شہر و مضافات شہر اندرون و بیرون ملک کئی اسفار فرمائے اور درس و تدریس کی غرض سے ایک عالم کو مستفید فرمائے۔ہر روزمسجد چمکورہ میں بعد نماز فجر زجاجۃ المصابیح سے ایک حدیث شریف کی مکمل تشریح فرماتے۔بروز جمعہ بعد نماز مغرب جامع مسجد حـضرت چیونٹی شاہ صاحب ؒمیں درس دیتے رہے ، یہ درس تقریباً چار دہائیوں تک جاری رہا ،اس درس میں حدیث شریف کی کتاب زجاجۃ المصابیح جلد اول اور فقہ میں نورالایضاح کا انتخاب فرمائے،مسجد قادریہ فرسٹ لانسرو مسجد سنگ و مسجد جعفریہ صنعت نگر میں دروس ومواعظ کا سلسلہ رہا۔


خلافت :

(۱) دوران قیام( بغرض تعلیم جامعہ امینیہ) دہلی میں حضرت علامہ مولانا سید مشہود الحسن چشتی قدس سرہ العزیز سے سلسلہ چشتیہ میں خلافت عطا ہوئی۔

(۲) حضرت علامہ مولانا سید شاہ طاہرالرضوی القادری قدس سرہ العزیزصدرالشیوخ جامعہ نظامیہ نے اپنے دولت خانہ میں ایک تقریب کے دوران آپ کو چاروں سلاسل عالیہ کی خلافت سے نوازا اور یہ فرمایا کہ یہ   خاتم الانبیاء شہ کونین ﷺ نے خواب میں اشارہ فرمایا ہے ، جس کی تفصیل بھی دلچسپی سے خالی نہیں، ہوتا یہ تھا کہ جامعہ نظامیہ کے بعض اساتذہ ہر ماہ باری باری دعوت طعام کا اہتمام کرتے حضرت صدر الشیوخ کی باری تھی دعوت کے بعد صدر الشیوخ حاضر اساتذہ جامعہ سے کچھ دیر مخاطب ہوئے اور حضرت مولانامحمد خواجہ شریفؒ صاحب کے محاسن کا تذکرہ فرمایا گھر کے اندر سے کچھ تبرکات کو منگوایا ان میں ہرا عمامہ بھی تھا اپنی خلافت کا اعلان کرتے ہوئے دستار خلافت باندھا۔ دوسرے اساتذہ محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ فرمایا میں اپنے سے خلافت نہیں دے رہا ہوں مجھے حضور پاک ﷺ نے خواب میں ہدایت فرمائی ہے۔ اب آپ طالبان تزکیہ کو ان کی اپنی طلب پر بیعت کر یں۔
(۳) حضرت شیخ علوی مالکی قدس سرہ العزیز نے بھی آپ کوخلعت خلافت سے نوازا ۔
(۴)فضیلۃ الشیخ السید ہاشم الرفاعی نے آپ کو سلسلہ رفاعیہ میں خلعت خلافت سے نوازا۔
حضرت قبلہ ؒ نے احیاء سنت رسول ﷺ فرماتے ہوئے اپنی حین حیات کسی کو بھی اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا۔


اجازات :

حضرت قبلہ ؒ کو مندرجہ ذیل وظائف میںخصوصی اجازت حاصل تھی:

۱) دلائل الخیرات : اس کتاب کی حضرت میر غلام محی الدینؒ مہاجر مدینہ نے آپ کو اجازت مرحمت فرمائی تھی۔

۲)حدیث حرز ابو دجانہؓ۔

۳)درود تاج (ہرجملہ مرفوع پڑھنے )کی اجازت مسجد نبوی شریف میں ایک بزرگ نے دی تھی۔

۴)ان اوراد کے علاوہ آپ آیات قرآنیہ کو خاص مواقع پر ورد کرنے کی اجازت دیتے تھے۔

۵) حدیثِ مسلسل اولیات


تصانیف :

حضرت قبلہؒکی کئی تالیفات ہیں جن میں ’’امام اعظم   امام المحدثین ‘‘ بڑی اہم ہے جو مرکز البحوث الاسلامیہ جامعہ نظامیہ سے طبع ہوئی۔
بخاری شریف کے منتخب دروس کو طلباء نے جمع کیا جومقدمہ’’ ثروۃ القاری‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔
بانیٔ جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام محمد انوار اللہ فاروقی ؒکی اردو کتاب  ’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘کا آپ نے عربی ترجمہ فرمایااس کتاب کی افادیت کا مقام اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ
حضرت امداد اللہ مہاجر مکی ؒنے حضرت بانی جامعہ نظامیہ کو انواراحمدی سے پہلے  ’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ کے نام سے شائع کرنے کا حکم دیا تھا ۔
محدث دکن ابو الحسنات حضرت سیدعبد اللہ شاہ نقشبندیؒ کی فقہ حنفی پر مبنی حدیث شریف کی عظیم کتاب زجاجۃ المصابیح جو ۵ جلدوں پر مشتمل ہے اس کااردو ترجمہ (نور المصابیح کی ۹ تا۲۲ جلدوں کا ترجمہ) آپ نے فرمایا
منظوم کلام:جس طرح نثر میں آپ کی نوادرات ہیں اسی طرح نظم میں بھی آپ کمال رکھتے ہیں، نعت(عربی،اردو)،مناقب، ترانے، یاقۃالتھانی (سہرے) ایک دیوان کی شکل میںبنام ’’المدائح العطرۃ‘‘ہے جو زیر طبع ہے۔


ایوارڈز :

عرب ممالک میں خصوصا علمائے مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ ،کویت ،قطر، انڈونیشیااورجرمن کے علماء نے آپ کی خدمات پرمومنٹوزاورتہنیت پیش کیا، اور ہندوستان کی نئی ریاست تلنگانہ کی جانب سے جشن یوم تلنگانہ کے موقع پرسنہ 2017 ء میںحکومت نے چیف منسٹرکے ہاتھ سے صوفی خدمات پر ایوارڈ پیش کیا،اور دیگر اسلامی تنظیموں و فلاحی اداروں نے علم حدیث کی خدمات ودرس وتدریس کے لئے ایوارڈ زعنایت کئے۔


آخری لمحات :

د نیا میں ہر کسی کی پیدائش کے ساتھ اس کی وفات کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے، یہ دنیا فانی ہے ہرکوئی اپنے  وقت  مقررہ تک باقی رہنے والے ہیں، حضرت قبلہؒ اکثر اوقات انگریزی دوا ؤںسے احتیاط فرماتے لیکن وصال سے دوسال قبل آپ کے  بطن مبارک میںمسلسل تکلیف محسوس ہوئی، کھانسی شروع ہوگئی، ایک مرتبہ یہ تکلیف اتنی شدید ہوگئی کہ آپ کے طبیب مستند ڈاکٹر محمد مشتاق علی صاحب فیتھ کلینک ،یاقوت پورہ سے رجوع ہوئے ،انہوں نے تشخیص کی اور پھر پیٹ کی اسکیاننگ کے لئے سٹی ہاسپٹل بھیجا،رپورٹ کے ذریعہ بتایا گیا پیٹ میں پھنسیاں ہیں، جو کہ عام طور پرمعدہ میں گرمی کے باعث ہوتی ہیں ،چونکہ ابتداء سے ہی حضرت قبلہ بالکل قدرے ناشتہ فرماتے گمان تھا کہ شاید یہی وجہ ہو گی، لیکن ماہ اکتوبر 2018 میں صحت بہت زیادہ ناساز ہوگئی اور پیٹ میں شدید تکلیف شروع ہو گئی حضرت قبلہ بہت بے چینی اور بے سکونی کی کیفیت میں تھے سب متفکر تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، لیکن ڈاکٹرنے پھر ایک ٹیسٹ تجویز کیا رپورٹ ناقابل برداشت تھی کہ حضرت قبلہ کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے پھر اس کی اطلاع جب حضرت کو دی گئی تو یہ خاصان خداہیں ان کو کسی قسم کا غم نہیں ہوتا حضرت نے بڑے اطمینان سے فرمایا میرے لیے یہ کوئی بیماری نہیں میں نے تو اس بیماری کے مریضوں کو ہفتہ بھر میں ٹھیک کردیا ہے، یہ توکل کی اعلی مثال ہے۔

پھر حضرت قبلہ نے گھر پر آرام کرنے کو ترجیح دیا اور کیر ہاسپٹل بنجارہ ہلز میں ایک ڈاکٹر کوئی یہ رپورٹ بتائی گئی ، لیکن مرض اپنے زور پر تھاڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے جرمنی کے مشہور اطباء سے رابطہ کیا اس پورے کام میں سرگرم جناب مصطفی بابرصا حب اورمولوی محمد طاہر خان خلجی صاحب تھے جو مسلسل ڈاکٹر سے رابطے میں تھے لیکن مشیت الٰہی کچھ اور ہی تھی ڈاکٹر نے بھی عاجزی کا اظہار کیا اور ایلوپیتھک طریقہ علاج کو روک دیا گیا،پھر یونانی طریقہ علاج شروع کیا گیا سلسلہ یوں ہی جاری تھا اس کی خبر سارے عالم میں پھیل گئی ہر طبقہ کے بڑے بڑے رہنماء اہم شخصیتیں حضرت کے گھر تشریف لاتے رہے اتنی سخت تکلیف میں بھی آپ نے اپنے مریدین اورمعتقدین کو پیغام دیا کہ آخری سانس تک اللہ اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے کنارہ نہیں ہے، پنجوقتہ نماز وقت پر کھڑے ہوکر ادا کرتے رہے۔

پھر ادائی عمرہ وزیارت نبی اکرم ﷺکا ارادہ فرمایا ،اور 7 نومبر کو روانہ ہوئے ،ساتھ میں افراد خاندان، محل مبارک ، دو صاحبزادیاں، داماد‘نواسے اور نواسے داماد ہمسفر تھے۔

روانگی سے قبل المعہد کے ذمہ دار حضرات سے یہ فرما تے تھے میںدس دن میں آ جاؤں گا یاتھوڑا رک کر آؤں گا یارک جاؤں گا، تمام رشک کر رہے تھے کہ اس حالت میں سفر کر رہے ہیںپھر مکۃ المکرمہ میں چار دن کا قیام کئے عمرہ ادا کئے وہاں کے اہل خاندان بھی جمع ہو گئے تھے اکثر اہل خانہ کے ساتھ عمرہ ادا کیے پھر مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو روانہ ہوئے، طبیعت دریافت کرنے پر فرماتے’’ الحمدللہ اچھاہوں ‘‘18 نومبر کو حضرت کے مدرسہ کا سالانہ جلسہ منعقد تھا،یہ پہلا جلسہ تھا جسمیں حضرت شریک نہیں تھے ،جلسہ ملتوی کرنے کی تجویز رکھی گئی تو ارشاد فرمائے حضور پاک صلی اللہ وسلم کی میلاد وجشن یوم تاسیس وجلسہ دستاربندی وقت مقررہ پر کر دینا چاہیئے کسی کا بھی انتظار مناسب نہیں پھر مدینے سے تمام شرکاء کو یہ پیغام بذریعہ سوشل میڈیا روانہ فرمائے۔

’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمدللہ مجھے شفا ہو رہی ہے اور میں ان شاء اللہ حاضر ہو نگا اور آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے معہد کے ساتھ اپنے خلوص اور ہمدردی کا اظہار کیا اس کی ضرورتوں کو خاص طور پر جلسہ کے موقع پر تکمیل کر رہے ہیں اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے‘  اور معہد کے تعلق سے فرمایایہ آپ کا اپنا قوم کا مدرسہ ہے اور اس میں آپ کا تعاون باعث اجروثواب ہے اللہ بہت برکت دے آپ کی زندگی میںو صلی اللہ علیہ وسلم علی خیر خلقہ و اٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین والحمد للہ رب العالمین‘‘

عمرے سے واپسی کے پندرہ دن بعد طبیعت ناساز ہوگئی اور جمعہ کے روز نماز جمعہ مسجد میں ادا کرنے کا اصرار کئے، نماز جمعہ جامع مسجد حضرت مومن شاہ رحمۃ اللہ علیہ میں ادا کئے، بارگاہ بانیٔ جامعہ نظامیہ میں حاضری کے بعد گھر تشریف لائے، سانس لینے میں بہت دشواری ہو رہی تھی، اہل خانہ کے مشورہ سے اسریٰ ہاسپٹل منتقل کئے گئے پھر شام کے وقت وینٹی لیٹر لگایا گیا اس شدید تکلیف میں بھی پنجوقتہ نمازاشارہ سے ادا کرتے رہے ،ہاتھ میں تسبیح اور زبان سے ذکر الہی جاری تھا۔


وفات :

الآخربتاریخ ۶؍ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ م14؍ڈسمبر 2018ءبروز جمعہ بوقت چاشت یہ علم کا مہتاب اور معرفت کا آفتاب اپنے مریدین اور منتسبین کی نظروں سے او جھل ہو گیا ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
آپ کے دولت خانے میں زائرین کو زیارت کروائی گئی اورتکفین کے بعد احاطہ جامعہ نظامیہ میں نماز جنازہ 08:30 بجے  شب مقرر تھی لیکن ہجوم اتنا تھا کہ جامعہ اپنی تاریخ میں پہلی بار تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا،بہ ایں سبب 9:00بجے نماز ادا کی گئی نمازجنازہ کی امامت حضرت علامہ مولانا مفتی محمدعظیم الدین صاحب قبلہ نے فرمائی۔
آپ کے وطن پوٹلہ پلی میں تدفین عمل میں آئی۔