ائمہ اربعہ ہی اہل السنۃ والجماعۃ کیوں ہیں؟

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔ اما بعد :

مقالہ کا موضوع ہے ’’ائمہ اربعہ ہی اہل السنۃ والجماعۃ کیوں ہیں؟‘‘ دور حاضر میں نئے نئے فرقے ابھرے اور ہر فرقہ کا یہ ادعاء کہ وہی حق پر ہے ’’کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ‘‘ اس وجہ سے اس موضوع کی اہمیت اور زیادہ ہوگئی ہے۔ وقت کم ہے، اسی مناسبت سے یہ مقالہ بھی مختصر ہے۔ صرف وہ اصول پیش کرنا چاہوں گا جن پر مذاہب اربعہ کی بنیاد ہے۔ جن سے ان کا حق ہونا واضح اور روشن ہے۔
حدیث شریف میں ہے: میری امت میں (۷۳) فرقے ہوجائیں گے، ان میں سے صرف ایک ناجی ہوگا۔ اور اسی حدیث شریف میں ناجی جماعت کی تعریف اور اس کی علامت بتلائی گئی ہے ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ ناجی جماعت وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہے۔ اسی کا نام اہل سنت وجماعت ہے کہ وہ احادیث شریفہ اور آثار صحابہ پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھتے ہیں۔
اب مسلمانوں میں جو متعدد فرقے ہیں منجملہ ان فرقوں کے غیر مقلد‘ وہابیہ‘ خوارج‘ شیعہ اور ان کے فروع یہ تمام فرقے اور ان کے علاوہ جتنے بھی فرقے پائے جاتے ہیں وہ خود اپنی جماعت کا ’’نام اہل سنت وجماعت‘‘ نہیں رکھتے۔ غیر مقلد خود کو بزعم خویش ’’اہل حدیث‘‘ محمدیہ اور سلفیہ سے موسوم کرتے ہیں اور ظاہر حدیث پر ہی عمل کرنے کے عادی ہیں۔ اصول فقہ کا ا نکو کوئی علم نہیں۔ عموما بخاری‘ مسلم کے صرف چند ہزار احادیث پر ان کی نظر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی لاکھوں احادیث ہیں جن سے ان کو کوئی علاقہ نہیں۔ ان میں وہ تطبیق بھی نہیں دے سکتے۔ اور لاکھوں احادیث ان کے دائرہ علم وحیطہ عمل سے باہر ہیں۔ صحابہ کے اقوال اور ان کے فتاویٰ ان کے مسلک جزو نہیں ہیں۔ صحیحین کی حدیث شریف ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوا بہا وعضّوا علیہا بالنواجذ‘‘ کے خلاف ان کا عمل ہے۔
خوارج اور ان کے ہم مسلک فرقوں نے جلیل القدر صحابہ کے خلاف خروف کیا آثار صحابہ ان کے مسلک میں نہیں۔ ’’اہل قرآن‘‘ نام کا فرقہ اخذ بالحدیث کا ہی انکار کرتا ہے۔ اہل تشیع حضرات نام نہاد ’’فقہ اہل بیت‘‘ کے نام سے اپنا مسلک بنائے ہوئے ہیں۔ ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘کے مطابق اخذ بالاحادیث وآثار صحابہ کو صرف اہل سنت وجماعت ہی نے اپنا اصول ومسلک بنایا ہے۔
ائمہ اربعہ کے مذاہب کی بنیاد ہی حدیث نبوی اور آثار صحابہ ہے، اسی لئے وہی اہل سنت وجماعت ہیں۔ اور حقیقت میں عامل بالحدیث بھی وہی ہیں۔ محدث کبیر امام عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ: ’’ابو حنیفہ کی فقہ کو ’’رائے‘‘ مت کہو اس کو تو حدیث کی تفسیر کہو‘‘۔ خود امام اعظم فرماتے ہیں کہ: ’’اگر میرا کوئی قول قرآن کے خلاف یا حدیث شریف کے خلاف یا اقوال صحابہ کے خلاف ہو تو میرے قول کو چھوڑ دو۔ اور فرماتے ہیں کہ: ضعیف حدیث بھی میرے نزدیک لوگوں کی رائے اور قیاس سے زیادہ پسندیدہ ہے اور آپ روایت بالمعنی کے بارے میں متشدد ہیں، صرف اس شرط پر قبول کرتے ہیں۔ شیخ عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں امام صاحب اور ان کے مقلدین کا قول کسی نہ کسی آیت یا حدیث شریف یا اقوال صحابہ سے مستنبط ہے۔ اور حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ تو خود تابعی ہیں۔ شیخ شعیب محدث اور دیگر جلیل القدر محدثین کرام اور کئی ایک حضرات اہل اللہ یحیٰ بن معین‘ القطان اور بڑے بڑے اصحاب رجال وحدیث امام صاحب کے مقلد تھے۔
اسی طرح حضرت امام مالک میں احادیث اور اس سے زیادہ آثار وفتاویٰ صحابہ ہیں۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے فقہ کی بنیاد کتاب وسنت اور آثار صحابہ پر رکھی ہے۔ اسی لئے یہ حضرات اور ان کے مسالک ومذاہب ’’اہل سنت وجماعت‘‘ ہیں۔
اب یہ سوال کہ ائمہ اربعہ ہی اہل سنت وجماعت کیوں ہیں؟ جبکہ اور بھی بہت ہیں مثلا سفیان ثوری‘ امام اوزاعی‘ اسحق بن راہویہ وغیرہ؟ اس کی متعدد وجوہ ہیں:
۱۔ مذاہب اربعہ کے علاوہ دیگر مذاہب غیر مدون تھے۔ اور وہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ ان کے مقلدین بھی کوئی نہیں رہے، ان کے مذاہب کے چند جزئیات ہمارے فقہاء کی کتابوں میں ملتے ہیں۔
۲۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ صرف ان چار مذاہب کی تقلید پر دوسری صدی ہی میں اجماع ہوگیا۔ اور ہر مذہب کے علماء وفقہاء نے ان چاروں مذاہب کی حقانیت پر فتویٰ دیدیا کہ ان کے سواء کوئی اور مذہب حق نہیں ہے۔ الاشباہ والنظائر‘ تفسیر احمدی اور ابن حجر نے فتح المبین فی شرح الاربعین اور علامہ ابراہیم مالکی نے فتوحات وہبیہ ہیں اور فتاویٰ تاتارخانیہ کے ناشر نے مقدمہ میں اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ الاشباہ والنظائر کی عبارت ہے: ’’وقد صرح فی التحریر أن الإجماع انعقد علی عدم العمل بمذہب مخالف الأربعۃ لانضباط مذاہبہم وکثرۃ أتباعہم‘‘ علامہ ابراہیم مالکی لکھتے ہیں ’’أما فیما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمۃ الأربعۃ: مالک وأبی حنیفۃ والشافعی وأحمد لأن ہؤلاء عرفت قواعد مذاہبہم واستقرت أحکامہا وخدمہا تابعوہم وحرروا فرعا فرعا وحکما حکما‘‘ ائمہ اربعہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین ان چاروں کے سوا کسی کی بھی تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے مذاہب کے اصول معلوم ہیں اور ان کے احکام قائم ہوچکے ہیں اور ان مذاہب کے ایک ایک جزئیہ کی تفصیل ضبط تحریر میں آچکی ہے اور ان مذاہب کے متبعین نے ان کی بڑی بڑی خدمتیں انجام دی ہیں اور ہر ہر فرعی مسئلہ اور ہر ہر فرعی حکم کو تحریر کردیا ہے۔
اس اجماع کے بعد یہ امر واضح ہے کہ یہ چار ائمہ اور ان کے مذاہب ہی مسلک اہل سنت وجماعت ہیں اور حق ہیں۔ تفسیر احمدی میں ہے: ’’قد وقع الاجماع علی ان الاتباع یجوز للاربع لا یجوز لمن حدث مجتہدا مخالفا لہم‘‘ صرف ائمہ اربعہ کی اتباع پر اجماع ہوچکا ہے۔ اب ان کے مخالف کسی نئے مجتہد کی تقلید واتباع جائز نہیں۔
امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں: ’’لایجوز تقلید غیر الائمۃ الاربعۃ: الشافعی ومالک وأبی حنیفۃ وأحمد رضوان اللہ علیہم اجمعین‘‘ ان چار اماموں کے سوا کسی کی بھی تقلید جائز نہیں کیونکہ حدیث شریف میں ہے: ’’لن تجتمع امتی علی الضلالۃ‘‘ میری امت ضلالت پر ہرگز جمع نہیں ہوگی۔
۳۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے جیسا کہ ملا جیونؒ تفسیر احمدی میں لکھتے ہیں: ’’ان انحصار المذاہب فی الاربعۃ واتباعہم فضل الہی وقبولیۃ عند اللہ تعالیٰ لا مجال فیہ للتوجیہات والادلۃ‘‘ مذاہب اربعہ ہی میں انحصار یہ فضل الٰہی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی مقبولیت ہے، یہ ایک ایسا سر ہے کہ اس میں توجیہات او دلائل کی کوئی گنجائش نہیں۔ اورشاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ الانصاف میں لکھتے ہیں: ’’وبالجملۃ فالتمذہب للمجتہدین سرّ ألہمہ اللہ تعالیٰ العلماء وجمعہم من حیث لا یشعون او لا یشعرون‘‘ ان مجتہدین کے مذاہب کو اختیار کرنا۔ یہ ایک سرّ الہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علماء پر اس کا الہام فرمایا، اور ان مذاہب کو اختیار کرنے پر شعوری طور پر لا شعوری طور پر ان کو جمع فرمایا۔ خواہ وہ اس کا احساس کریں یا نہ کریں۔ اور مذاہب اربعہ کے استقرار اور ان کا عالم اسلام میں اختیار کیا جانا یہ منشاء الہی او راس کا ایک خاص فضل اور سر الہی ہے۔ اور ائمہ اربعہ میں سے ہر ایک کی عظمت واعلیٰ بلند سے متعلق صحیحین اور سنن میں احادیث موجود ہیں۔ تمام اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ ان ائمہ اربعہ کا ہادی ۔
آخر میں اس امر کی مزید وضاحت کی جاتی ہے کہ اگر آج ایسا کوئی مجتہد پیدا ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہوگا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: مجتہد کے لئے پانچ لاکھ احادیث ازبر ہونا چاہیے۔
نیز یہ کہ علم حدیث سے کامل معرفت کیلیء ۶۰ علوم کی ضرورت ہے۔ اور قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے فہم کے لئے بیسیوں علوم کی ضرورت ہے۔ اور وجوہ قراء ات سے مکمل واقفیت، اور علم لغت اور اس کے آداب واصول‘ مسالک ومذاہب سلف‘ اور اسی طرح کے دیگر علوم ہیں جن کے بغیر کوئی اجتہاد کے زینہ پر قدم نہیں رکھ سکتا۔
علماء اجلہ اور اولیاء واقطاب صلحائے امت نے دوسری صدی ہجری کے بعد سے ہی ائمہ اربعہ کی تقلید سے اپنے قدم باہر نہیں نکالے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا تو ہے لیکن ائمہ اربعہ کے بعد آج تک کوئی اس میں داخل نہیں ہوا۔ گویا اجتہاد علی الاطلاق بند ہی ہوگیا ہے۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی کی پیروی کرنا حدیث شریف ’’اتبعوا السواد الاعظم‘‘ کے بھی خلاف ہے اور ’’من شذ شذ‘‘ کے مصداق ہے۔
اللہم حبب الینا الائمۃ المجتہدین الہادیین المہدیین وثبت اقدامنا علی التقلید بمذاہبہم واحشرنا فی زمرتہم۔ آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین۔
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ وآلہ وصحبہ وباک وسلم اجمعین۔
(مجلہ نظامیہ خصوصی شمارہ بضمن ایک سو پچیس سالہ جشن تاسیس جامعہ نظامیہ، جلد۶، شمارہ۶، ۱۹۹۷ئ)