احادیث شریفہ سے وابستگی، رضائے الہی کی ضامن بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس

0

بخاری شریف کو قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ حاصل ہے، اللہ تعالی نے اس کو غیر معمولی مقبولیت عطاء فرمائی ہے۔
دنیا بھر میں جہاں کہیں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں، وہاں لازماً بخاری شریف کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب انگنت علوم وفنون کا مرجع ومصدر بھی ہے۔
علمائ، اھل اللہ اور صلحاء نے روز اوّل سے بخاری شریف کے درجۂ کمال واہمیت کو محسوس کیا ہے۔اسلامیات کا ایک بہت بڑا اور قابل قدر حصہ بخاری شریف کے شروحات اور اس سے متعلق تفصیلات پر مبنی ہے۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہ کتاب ہر مسلمان کے لئے حرز جاں ہے، خود نبی کریم ﷺ سے اس کے تعلق خاطر کا اندازہ اس خواب سے ہوتا ہے، جس میں آپ ﷺ نے شیخ ابو زید مروزی شافعی سے فرمایا : یا أبا زید إلی متی تدرس کتاب الشافعي ولا تدرس کتابي؟ فقلت: یا رسول اﷲ و ما کتابک؟ قال: جامع محمد بن اسماعیل۔
ائے ابوزید مروزی تم میری کتاب کا درس کیوں نہیں دیتے ؟تو ابوزید کہتے ہیں :میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ آپ کی کتاب کونسی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: محمد بن اسماعیل کی جامع!۔(حافظ ابن حجر عسقلانی، مقدمہ فتح الباری )ا س طرح حضور پاک ﷺ نے بخاری شریف سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار فرمایا ،
سطور ذیل میں بخاری شریف اور اس کی آخری حدیث شریف سے متعلق اہم مباحث کو رقم کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے تا کہ طلبۂ عزیز کے ساتھ عامۃ المسلمین کو بھی استفادہ کا موقع ملے۔
امام بخاری نے اس کتاب کو سولہ سال میں مکمل کیا اوراس کی تدوین کے وقت آپ کا طریقہ کار یہ تھا کہ ہر حدیث شریف کو لکھتے وقت غسل کرتے اور دو رکعت نماز ادا کرتے۔
امام بخاری نے اس کے تراجم اور عنوانات کو رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارکہ اور منبر شریف کے درمیان قائم کیاہے، ان تراجم میں جو معنویت اور گہرائی وگیرائی ہے، جیسا کہ مقولہ مشہور ہے :فقہ البخاری فی تراجمہ اور اس کی جو شان وعظمت ہے، وہ آپ کے اسی ادب کی وجہ سے ہے اور اسی ادب کا نتیجہ ہے، آپ نے اس کتاب کا نام ’الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ‘ رکھا اور اس کو کُتب اور ابواب پر ترتیب دیا، سب سے پہلا باب آغاز وحی کی کیفیت ہے اور آخری باب اللہ تعالی کی صفت کلام کا اثبات ہے، جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے آغاز سے انتہاء تک وحیٔ الہی کا محتاج ہے اور انسان کی عقل اپنے لئے نظام حیات کی تدوین کے لئے کافی نہیں ہے۔
مسلمان کی زندگی کا مکمل نظام، رات و دن کا قاعدہ اور اس کی انفرادی ، اجتماعی ، معاشی ، سیاسی پوری زندگی کا دستور حیات سب کچھ وحیٔ الہی کے مطابق ہونا چاہئیے، اسی میں اس کے لئے کامیابی کی ضمانت ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے مقدمہ فتح الباری کے فصل ثانی میں ختم بخاری کی فضیلت کے بارے میں لکھا ہے کہ ابو جمرہ نصربن عمران تابعی ،ابن عباس ؓ کے شاگرد نے کہا :بعض عارفین نے ان کو بتایا کہ بخاری شریف کسی بھی شدت میں پڑھی جائے تو تکلیف دور ہوجاتی ہے اور کسی بھی جہاز میں کوئی ساتھ رکھ کر سوار ہوجائے تو جہاز ڈوبتا نہیں۔
بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث شریف :انما الاعمال بالنیات ہے،اصحاب حدیث نے اس کو’ ’أم الأحادیث‘‘ قرار دیا ہے اوریہ حدیث شریف نظام شریعت کے اساسی وبنیادی چار احادیث میں سے ایک ہے، اس حدیث شریف سے آغاز کا مقصود ہر کام سے پہلے حسن نیت اور صفائی قلب کی ضرورت واہمیت بتانا ہے۔
ہر کام کے شروع میں نیت نیک ہو تو اﷲ تعالی کے پاس کامیابی وقبولیت ہوگی ،اور تمہارا کام بن جائیگا، اس حدیث شریف میں’ ہجرت‘ کا مضمون بڑی جامعیت رکھتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ تم ہر کام میں نفس کی خواہشات کو چھوڑو اور اﷲ کی طرف ہجرت کرو، اسی کی مرضی کو اختیار کرو، دو آدمی ایک ہی نماز ایک ہی وقت میں برابر پڑھتے ہیں، جس میں سے ایک کی نماز قبول ہوتی ایک کی نہیں ، اسی طرح دو آدمی ایک ہی کاروبار کرتے ہیں ایک کے پاس برکت ہوتی ہے، دوسرے کے پاس نہیں ہوتی ، دو شخص ہیں ایک کی تنخواہ کم ہوتی اور دوسرے کی زیادہ ہوتی ہے، کم تنخواہ والے کے پاس برکت اور سکون ہے،زیادہ تنخواہ والے کے پاس نہیں ہے ۔ یہ سب حسنِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے ہے۔ جو کام اﷲ کے لئے ہوتا ہے وہ کم ہو تو بھی اس میں برکت ہوتی ہے۔
امام بخاری نے اس کے بعد پہلی کتاب ’ایمان‘ کی قائم کی ہے ، پھر عبادات اور معاملات کے مضامین ذکر کئے ہیں، کیونکہ ہر کام کا مدار ایمان پر ہے، اور عبادات اللہ تعالی کے حقوق ہیں جب کے معاملات بندوں کے حقوق ہیں ان سب کو طبعی ترتیب کے مطابق رکھا گیا ہے تاکہ وضع‘ طبع کے مطابق رہے کیونکہ عبادات اور معاملات ، اخلاقیات اورآداب کوئی بھی عمل ہو ایمان کے بغیر مقبول نہیں ہوتا۔
امام بخاری ان کُتب وابواب میں جو احادیث شریفہ انکی شرط کے مطابق ہیں بیان کرتے گئے ہیں ،حافظ ابن صلاح نے لکھا ہے کہ: بخاری شریف میں جملہ احادیث (7275) ہیں اور مکررات کو الگ کردیں تویہ تعداد ( 4000) ہوتی ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے مقدمہ فتح الباری میں بتایا ہے کہ احادیث مسند ہ اور معلقات ومتابعات کو جمع کیا جائے تو جملہ احادیث (9082) ہیں اس میں مسند احادیث بشمول مکررات (7397) ہیں اور معلقات (1341) ہیں اور متابعات 344 ہیں اور مکررات کو الگ کردیا جائے تو مرفوع احادیث کی تعداد2623 ہے۔
او ر پہلی حدیث’’ انما الأعمال بالنیات‘‘ اخلاص عمل ، حسن نیت اور ہجرت کی ہے اور آخری حدیث ’’سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم‘‘ ہے۔
شارحین بخاری کہتے ہیں کہ امام بخاری کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہی ہے کہ بخاری شریف کے پڑھنے ، سننے والے تمام حضرات میں اچھی سے اچھی صلاحیت پیدا ہو اور وہ استنباط بھی کرسکیں اسی لئے بعض مقامات میں لفظ باب لکھ کر اس کا عنوان نہیں لکھتے تاکہ ان کی استعداد بڑھے اور ذہن تیز ہو اوروہ خود اس کے لئے مناسب عنوان قائم کریں ۔
اور بخاری شریف کے بعض ابواب میں بظاہر مطابقت معلوم نہیں ہوتی مگر اس میں فی الواقع لطیف اور گہرا ربط ہوتا ہے جس کو عارفین جانتے ہیں۔
بخاری شریف میں شروع سے آخر تک اس کے تمام عنوانات میں بہت موزو نیت ہے، امام بخاری نے بخاری شریف کو باب سے شروع کیا اور باب پر ختم کیا ہے، ایک عنوان پر مشتمل مضمون کو’ باب‘ کہتے ہیں، اور اس میں جملہ أبواب کی تعداد (3960) ہے، پہلے باب کا عنوان وحی کے آغاز کی کیفیت ہے اور آخری باب کا عنوان اللہ تعالی کی صفت کلام اور وزن اعمال ہے، ابتداء وانتہاء دونوں میں بہت مناسبت ہے کیونکہ وحی الٰہی اﷲ تعالی کی صفت کلام ہے، بخاری شریف کا آغازبھی صفت کلام سے ہے اور اسکی انتہا بھی صفت کلام پر ہے، پہلے باب ’بدء الوحی‘ کے بعد پہلی کتاب کتاب الایمان کو بیان کیا ہے ، اور آخری کتاب کا عنوان ’توحید‘ ہے، دونوں میں نہایت گہرا ربط ہے کہ ابتداء بھی ایمان وتوحید سے ہے اور انتہا بھی ایمان وتوحید پر ہے، کا میابی کا دارو مدار بھی خاتمہ بالایمان والتوحید پر ہے، توحید اپنے مفہوم میں رسالت، آخرت اور ان کے متعلقہ تمام ایمانی عقائد کو شامل ہے ، زندگی کا آغاز بھی ایمان سے اور خاتمہ بھی ایمان پر ہوناچا ہیئے اور سب سے پہلی حدیث شریف ’’انما الأعمال بالنیات‘‘ ہے اور یہ حدیث شریف مدارِ شریعت ہے اس میں کمال اخلاص، حسن نیت اور ہجرت کا مضمون ہے، تمام ائمہ کرام نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث شریف نظام شریعت کا ۴۔۱ حصہ ہے اور آخری حدیث شریف ’’سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم‘‘ ہے۔
ابتدائی اور آخری دونوں حدیثوں میں نہایت مناسبت اورموزو نیت ہے : یعنی کام کے شروع میں نیت اچھی ہونا اور اس میں دکھاوا ، نمود ، ریاکاری، شہرت کا جذبہ نہیں ہونا، اس کے نتیجہ میں بروز محشر انسان کا نامۂ اعمال بھاری ہوگا اور وہ رب العزت کے پاس محبوب ومقبول ہوگا، چنانچہ آخری حدیث شریف میں اسی حدیث کو بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اﷲ کو ہر وقت اس بات کی فکر ہے کہ کتاب بخاری کو پڑھنے، پڑھانے اور سننے سنانے والے سب نیک با عمل اور دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ بن جائیں، ان کا دین و ایمان ہمیشہ سلامت رہے ، چنانچہ بخاری شریف کو ختم کرنے سے پہلے دین سے نکل جانے والی قوم’ مارقہ‘ کی حدیث بیان کئے ہیں کہ کچھ لوگ تلاوت قرآن، نماز و روزہ ، اور خشوع و خضوع میں سب سے زیادہ اہتمام کرنے والے نظر آتے ہیں مگر وہ تیر کی طرح دین سے نکل جاتے ہیں ، ان کی تلاوت اور ان کی تقریر و خطاب و غیرہ کو امام بخاری محض آوازوں سے تعبیر کرتے ہیں کہ وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترینگی۔
اسی لئے عقیدۂ صحیحہ کی ضرورت ہے اور بندۂ مومن خاتمہ بالخیر کی دعاء کرتارہے، جس کا خاتمہ توحید حقیقی پر ہوگا وہ نجات پائیگا۔ اس لئے بخاری شریف کی آخری کتاب کتاب التوحید قائم کیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کتاب التوحید میں باطل فرقوں کا رد کر رہے ہیں اور توحید کا مفہوم بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی کے لئے صفات ہیں اور وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا و بے مثل ہے ، باطل فرقوں میں اصل چار فرقے ہیں۔
(۱) جہمیہ و مرجئہ
(۲) معتزلہ و خوارج
(۳) جبریہ و قدریہ
(۴) روافض
اور دیگر فرقے ان ہی سے نکلتے ہیں اور دنیا میں ہر فرقہ حتی کہ مشرکین اور کفار بھی خود کو توحید کا ماننے والا ظاہر کرتے ہیں ، حالانکہ وہ توحید سے دور ہیں اور مشرک ہیں۔
جہمیہ اور معتزلہ:
جہمیہ اور معتزلہ اور ان سے متعلقہ فرقے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کرتے اور اس میں تاویلات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفات کا اثبات شرک کا موجب ہے کیونکہ اگر وہ حادث ہیں تو اللہ تعالی کے ساتھ حدوث لازم آئیگا ، اگر ان کو قدیم کہا جائے تو ذات و صفات دو قدیم لازم آئینگے اور یہ شرک ہے امام بخاری ان کا رد کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے لئے صفات کو ثابت کر رہے ہیں اور ہر جگہ قرآن مجید کی آیات پیش کر رہے ہیں تاکہ کسی انکار کرنے والے کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ توحید کے بنیادی عقائد کو خبر واحد سے ثابت کیا جارہا ہے۔
اس لئے آپ نے ان صفات کو قرآن مجید سے ثابت کیا ہے اور صفات باریٔ تعالی کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے صفات ہیں اور وہ نہ تو عین ذات ہے اور نہ غیر ذات ، اللہ تعالی نے اپنی صفات کی دو قسمیں بتلائی ہیں: ذو الجلال و الاکرام وہ جلال و اکرام والا ہے اس کی صفات کی دو قسمیں ہیں :
(۱)صفت جلال اس کو صفات سلبیہ و صفات نفی بھی کہتے ہیں، اور اس کو تنزیہات بھی کہا جاتا ہے ، تسبیح میں صفات جلال و تنزیہات کا ذکر ہوتا ہے ۔
(۲) دوسری قسم صفات اکرام ہے اس کو صفات وجودیہ اور صفات کمال بھی کہا جاتا ہے ، اور حمد میں صفات اکرام کا ذکر ہوتا ہے۔
اور صفات اکرام میں امہات الصفات سات ہیں اور یہ صفات ذاتیہ ہیں ، صفات ذاتیہ وہ صفات ہیں کہ باریٔ تعالی میں ان کی ضد نہیں پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہیں۔
(۱) حیات (۲) قدرت (۳) ارادہ (۴) علم
(۵)سمع (۶)بصر (۷)کلام۔
ان کے علاوہ دیگر صفات فعلیہ ہیں فعلیہ وہ صفات ہیں جن کی ضد بھی باریٔ تعالی میں پائی جاتی ہے۔
اور آخری حدیث کا عنوان اور باب وزن اعمال و اقوال ہے ، کیونکہ جنت و دوزخ اور کامیابی یا نا کامی کے فیصلہ کی آخری حد اعمال و اقوال کا وزن اور حساب و کتاب ہے ، وزن اعمال کے بعد نہ حساب ہے نہ کتاب ہے۔
امام بخاری رحمہ اﷲ جگہ جگہ حل لغات بھی کرتے ہیں ، وزن اعمال کے مضمون میں قرآن مجید کی آیت میں قسطاس اور قسط کا لفظ آیا ہے قسطاس کے معنی عدل یعنی توازن و انصاف کے ہیں اور رومی زبان میں بھی قسطاس کے معنی عدل یعنی توازن و انصاف کے ہیں، یہ لفظ عربی ہے اور دوسری زبانوں میں بھی اسی معنی میں ہے اس کو توارد کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لفظ رومی زبان کا ہے اہل عرب نے اس لفظ کو عربی بنایاہے ،لیکن اس کو توارد قرار دینا بہتر ہے اس کی سب سے اچھی بحث الاتقان فی علوم القرآن میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اﷲ نے کی ہے اور راجح قول یہی ہے کہ یہ لفظ عربی ہے، دوسری زبان کا دخیل نہیں ہے، دوسری زبانوں میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ، امام بخاری یہ بتا رہے ہیں کہ قسط مقسط کا مصدر ہے، مصدر سے ان کی مراد مادّہ ہے کیونکہ مقسط کا مصدر اقساط ہے اور اس کا مادہ قسط ہے اور جب قسط باب افعال سے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی انصاف کے آتے ہیں اور یہی مادہ جب مجرد میں باب ضرب و نصر سے استعمال ہوتا ہے ،تو اس کے معنی ظلم کے ہیں، اس کا اسم فاعل قاسط ہے اور قاسط کے معنی جائر یعنی ظالم کے ہیں۔ یعنی لفظ قسط مجرد میں ظلم کے معنی میں ہے اور اس کا استعمال باب افعال سے ہو توسلب ماخذ ہو کر انصاف کے معنی میں مستعمل ہے، مگر لفظ قسط لغت میں اور قرآنی استعمال میں عدل و ظلم دونوں معنی میں بکثرت مستعمل ہے اور یہ لغت اضداد میں سے ہے۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ قصہ ذکر کیا جاتا ہے : حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ تعالی عنہ کو حجاج ظالم نے شہید کیا اور اس وقت اس سے جو گفتگو ہوئی وہ نہایت معنی خیز ہے ، حجاج بادشاہ نے جو ظالم تھا ہزاروں علماء اور صالحین کو شہید کیا اور حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ تعالی عنہ کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا اور ان کو گرفتار کرکے جب حجاج کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے آپ سے پوچھا تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو تو آپ نے فرمایا: أنت القاسط العادل درباری سمجھے یہ حجاج کو اب تک ظالم کہتے تھے مگر موت سے ڈر کرآج حجاج کو قاسط و عادل یعنی انصاف پسند کہہ رہے ہیں، مگر حجاج سمجھ گیا او ردرباریوں سے کہا: تم نہیں سمجھے یہ تو مجھے ظالم و جابر اور کافر اور جہنمی کہہ رہے ہیں اور قرآن شریف کی آیت پڑھا: و أما القٰسطون فکانوا لجہنم حطبًا(الجن:۱۵) اور لیکن ظالم لوگ تو وہ جہنم کا ایندھن ہونگے ۔ ثم الذین کفروا بربہم یعدلون(الانعام : ۱) پھر جو لوگ کفر کئے ہیں وہ اور چیزوں کو اپنے رب کے برابر ٹھیراتے ہیں۔
بخاری شریف میں ہم نے جو کچھ پڑھا ہے اور شریعت کے جو احکام ہیں ان سب پر عمل کرنے کاہم کو حکم دیا گیا ہے، اس کی باز پرس ہوگی، حساب و کتاب لیا جائیگا اور اعمال کا وزن ہوگا تاکہ برے کام کرنے والے بے عمل لوگ اس کو جھٹلا نہ سکیں ۔
اعمال کے وزن سے متعلق انسانوں کی تین قسمیں ہوں گی:
(۱) وہ نیک بخت حضرات جو کامل درجے کے متوکل ہیں وہ بغیر حساب و کتاب جنت میں جائیں گے ،ان کی تعداد سے متعلق بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ وہ ستر ہزار ہوں گے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے۔
(۲) وہ بدبخت کفار و مشرکین ہوں گے جن کے پاس کوئی اچھائی نہیں ہوگی، ایسے سارے بدبخت بغیر حساب و کتاب کے دوزخ میں جائیں گے اس پر قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا جاتاہے : فلا نقیم لہم یوم القیٰمۃ وزنا(الکھف:۱۰۵)۔ پس ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کرینگے۔
(۳) تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جن کا حساب و کتاب ہوگا ، ان کے اعمال بھی تولے جائیں گے اور ان کے اقوال بھی تولے جائیں گے ، تولنے کا کام حضرت جبریل علیہ السلام یا حضرت عزرائیل علیہ السلام کے ذمہ ہوگا اور اس کی نگرانی ابو البشر حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کریں گے اور میزان کا پلہ اتنا بڑا ہوگا کہ ساتوں زمیں و آسمان اس میں رکھدئے جائیں تو بھی وہ نہیں بھرے گا ، لیکن اﷲ تعالی کا جب فضل ہوگا تو وہ ایک چھوٹے سے کھجور کے ٹکڑے سے بھردیگا اور وہ وزنی ہوجائے گا،کلمہ ’’لا اِلٰہ اِلا اﷲ‘‘ کا ایک بول جو اخلاص سے کہا گیا ہے وہ اس پلہ کو بھاری کردیگا ۔
وزن اعمال سے متعلق جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اعمال اور اقوال یہ سب اعراض (جو اپنے قیام میں دوسرے کی محتاج ہو) ہیں، ان کو کس طرح تولہ جائیگا؟ کیونکہ عرض اپنے محل کے ساتھ رہتا ہے اور اس کا مستقل وجود نہیں ہوتا، اس سوال کے متعدد جوابات دئے گئے ہیں، یہاں پر تین جوابات نقل کئے جاتے ہیں۔
(۱)کہ : نامۂ اعمال کو تولہ جائیگا، جس قدر اخلاص ہوگا اور نیت اچھی رہے گی نامۂ اعمال کا وزن بڑھ جائیگا ۔
(۲)اور دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت سیدنا عباس رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں اﷲ تعالی ہر عمل و قول کو جوہر سے بدل دیگااور جسم دار بنادیگا اوریہ جسم تولے جائیں گے ۔
(۳)تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قول و عمل کو عرض کی حیثیت سے ہی تولا جائیگا ، اﷲ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اس پر اعتراض یا شبہات کا بے معنی اور لغو ہونا آج کے سائنسی دور میں کسی پر پوشیدہ نہیں، کیونکہ دور حاضر کی انسانی ایجادات کے ذریعہ گرمی ‘سردی اور دیگر بہت سی چیزوں کو تولا جا رہا ہے جو محض اَعراض ہیں۔
بخاری شریف کی وہ حدیث جو ’وزن عمل‘ کے عنوان میں لائی گئی ہے، وہ بخاری شریف کی آخری حدیث شریف ہے: حدثنا أحمد بن اشکاب حدثنا محمد بن فضیل عن عمارۃ بن القعقاع عن أبي زرعۃ عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ قال: قال النبي ﷺ: کلمتان حبیبتان اِلی الرحمٰن، خفیفتان علی اللسان ،ثقیلتان في المیزان:سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دو کلمے جو رحمن کو پسندہیں، زبان پر ہلکے اور میزان/ترازو میں بھاری ہیں، وہ سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم ہیں، اللہ پاک ہے اور ساری تعریف کے لائق ہے، ہم اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں وہ عظمت والا ہے۔
اس حدیث شریف میں بہت فوائد ،بکثرت معارف وعوار ف اور حقائق ودقائق ہیں ، اس کو آخر میں لانے میں بڑی حکمت وفوائد ہیں، علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی، علامہ حافظ احمد بن علی ابن حجر عسقلانی شافعی ، علامہ احمد بن محمد قسطلانی شافعی اور تمام شارحین اور بزرگوں نے اس کی شرح میں بہت لکھا اور تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔
اب اس آخری حدیث شریف سے متعلق چند ضروری امور کو ذکر کیا جائے گا، یہ آخری حدیث شریف اپنے معانی ومطالب کے اعتبار سے نہایت جامع ہے اور دنیا وآخرت میں سکون وراحت اور کامیابی وکامرانی کی ضامن ہے ، ساری بخاری شریف اور شریعت مطہرہ کا خلاصہ ہے، اس کو کسی بھی مجلس کے آخر میں پڑھ لیا جائے تو کفارۂ مجلس ہے۔ اسی لئے اس کو امام بخاری نے سب سے آخر میں ذکر کیا ہے۔ اس میں ظاہر وباطن کی تمام بیماریوں کا علاج ہے، صحت عقیدہ کا بیان ہے،اعمال صالحہ کی مقبولیت کی علامت اور حسن خاتمہ کا اعلان ہے۔
یہ حدیث شریف تمام انسانوں کی دنیاوی اور اخروی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے، دل کو سکون ،روح کو جِلاء دیتی ہے اور ذہن و دماغ کو معطر کرتی ہے، ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اسی لئے اسکو نہایت آسان اور ہر شخص کے لئے سہل الحصول بنایا گیاہے،یہ بہت ہی مختصر ہے، تا کہ ہرایک اسکو سہولت سے حاصل کرلے، اس حدیث شریف کو امام بخاری نے ۳ مقامات میں ذکر کیا ہے اور ہر روایت میں کلمات میں تقدیم و تأخیر ہے، ہر مقام پر اس سے مناسبت والی روایت لاتے ہیں ۔
(۱) سب سے پہلے کتاب الدعوات باب فضل التسبیح میں ہے اور اس میں کلمتان خفیفتان علی اللسان ،ثقیلتان فی المیزان کے بعد ’’حبیبتان الی الرحمن‘‘ ہے اور سبحان اﷲ العظیم پہلے ہے اور سبحان اﷲ وبحمدہ بعد میں ہے ۔
(۲)دوسری مرتبہ یہ حدیث شریف کتاب الایمان والنذور میں آئی ہے اس میں کلمتان خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان مقدم ہے، اس کے بعد حبیبتان الی الرحمن ہے اور تسبیح کے کلمات اس آخری حدیث کے مطابق ہیں ۔
حدیث شریف کی سند یا متن میں کسی جگہ کوئی راوی یا لفظ دوسرا ہو تو یہ دوسری حدیث شریف کہلاتی ہے۔ اس حدیث شریف کی سند میں امام بخاری کے شیخ کا نام احمد بن اشکاب ہے۔ اشکاب کا نام علی اختلاف الاقوال ’’مجمع‘‘ یا’’ معمر‘‘ ہے ، اشکاب کوبعض حضرات نے عجمی کہا ہے ایسی صورت میں وہ غیر منصرف ہے، اور جو حضرات عربی کہتے ہیں وہ منصرف پڑھتے ہیںاور انکے شیخ محمد بن فضیل ہیں، بعض حضرات نے انہیں شیعی کہا ہے، در حقیقت یہ فرقہ شیعہ کے نہیں تھے مگر فتنۂ خارجیہ کے زمانہ میں اہل بیت سے محبت کا اکثر اظہار کرتے تھے اور اس میں کو ئی حرج نہیں ہے، ابن معین اور علامہ عجلی نے ان کو’ثقہ‘ قرار دیا ہے ، امام نسائی نے ان سے متعلق لا بأس بہ (ان میں کوئی حرج نہیں ہے)کہا ہے۔
بخاری شریف کے (80) اسّی راویوں پر کلام کیا گیا ہے ، علامہ ابن حجر عسقلانی نے نام بنام ہر ایک کا جواب دیا ہے۔ اس حدیث شریف میں محمد بن فضیل کے شیخ عمارہ بن قعقاع ہیں اور انکے شیخ ابو زرعہ ہیں ان کا نام ہرِم ہے ۔
ابو زرعہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت فرمائی ہے، آپ کا نام عبد الرحمن یا عبداﷲ ہے اور آپ کی زندگی کے شب و روز، تمام کے تمام ایمان افروز ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کے ایمان لانے کا عجیب و غریب واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے آپ کے سن وفات میں 57 ؁ھ یا 58؁ھ یا 59؁ھ مختلف اقوال ہیں آپ’ مکثرین صحابہ‘ (احادیث شریفہ کو بکثرت روایت کرنے والے) میں سے ہیں آپ سے( 5374) احادیث مروی ہیں۔
اس آخری حدیث شریف کی یہ سند’’ مسلسل بالکوفیین‘‘ ہے ، یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے تک کے تمام راوی اہل کوفہ ہیں اور کوفہ قبۃ الاسلام وجمجمۃ الاسلام کہلاتا ہے ، اس میں عرب و عجم کا حسین امتزاج ہے، علم و عرفان اور علوم اسلامیہ کا مرکز ہے، امام بخاری ؒمتعدد مرتبہ علم حدیث کے لئے کوفہ کا سفر کئے، امام المحدثین و الأئمہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بھی کوفی ہیں، اور اس حدیث کے آخری راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ دوسی اور یمنی ہیں ، یمن کے کیا کہنے وہ اپنے نام کی طرح مبارک ہے، حدیث شریف میں ہے: الایمان یمان و الفقہ یمان و الحکمۃ یمانیۃ، ائمہ اربعہ میں امام مالک کا خاندان یمنی ہے اور دیگر ائمہ ثلاثہ کے اساتذہ اور اساتذہ کے اساتذہ بھی یمنی ہیں ، اس کی سند میں دو جگہ تحدیث اور تین جگہ عنعنہ ہے اور امام بخاریؒ کا عنعنہ سماع اور اخبار کے معنی میں ہے۔
وزن اعمال کے عنوان کی حدیث شریف بخاری شریف کی سب سے آخری حدیث ہے، یہ حدیث شریف عقیدہ و عمل کے جملہ مضامین پر جامع و شامل ہے اور یہ صرف دو کلمے ہیں ، ان کو نہایت مختصر اور ہلکا بتایا گیا ہے، تا کہ پڑھنے والے کے شوق ورغبت میں ازدیاد واضافہ ہو، کلمتان خفیفتان یہ صرف دو کلمے ہیں اور وہ دونوں کلمے زبان پر نہایت ہلکے اور خفیف ہیں، اس کو ادا کرنے میں کوئی مشکل اور دقت بھی نہیں ہوتی، ہر عام وخاص، تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو، کوئی بھی نہایت آسانی سے بول سکتا اورپڑھ سکتا ہے ، اس میں صرف ایک حرف (ب) شدیدہ اور ایک حرف( ظ) مطبقہ اور مستعلیہ ہے باقی تمام حروف رخوہ کے ہیں جو سہل الاداء ہیں ، نیز یہ کہ رحمن کویہ دو کلمے بہت پسند ہیں، بندہ جب ان کو ادا کرتا ہے اور پڑھتا ہے توخود بندہ بھی رحمن کا محبوب بن جاتا ہے ، کیونکہ محبوب کا محبوب، محبوب ہوتا ہے، اور صفت رحمن کے ذکر کرنے میں مقصود یہ ہے کہ رحمن سب سے زیادہ مہرباں ہے اور اپنی شان رحمت و کریمی سے دو مختصر بول پر اس کا اس قدر ثواب دیتا ہے کہ اعمال کے ترازو کا پلہ بھاری ہوجاتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے ’’الحمد ﷲ‘‘ میزان کو بھر دیتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ سبحان اﷲ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے ثواب کا کیا عالم ہوگا۔
یہ حدیث شریف تین جگہ ہے، اس آخری حدیث شریف میں کلمتان حبیبتان الی الرحمٰن کو مقدم کیا گیا ہے، کیونکہ محبت ایک ایسی چیز ہے اس کی راہ میں مشقت میں بھی حلاوت اور مٹھاس محسوس ہوتی ہے، کسی چیز سے محبت ہونا اس کو اختیار کرنے کا بڑا سبب ہے، یہ اسلوب بھی مٹھاس والا ہے کیونکہ ا نسان محبت میں اس کو قبول کرنے اور اختیار کرنے کے لئے بے چین ہوجاتاہے ، اس کو اختیار کرکے مسرت و خوشی محسوس کرتا ہے،یہ دو کلمے محبت کا سبب ہیںاور وہ دونوں سہل بھی ہیں اور اس کے ثواب کا کیا کہنا وہ تو بہت ہی زیادہ ہے ، اتنی بڑی تمہید اور شدید انتظار کے بعد ان دو کلموں کو جو مبتدا تھے خبر کی جگہ میں ذکر کیا گیا یہ دو کلمہ ترکیب میں مبتداء ہیں اور کلمتان جو مقدم ہے وہ خبر ہے ، مگر مبتدا کو خبر کی جگہ اور خبر کو مبتدا کی جگہ رکھا گیا تا کہ اس کا شوق بڑھتے جائے اور تڑپ پیدا ہو ،کیونکہ وہ غیر معمولی اہمیت کے ہیں اس لئے جب تک انسان میں اسکے معلوم کرنے کی تڑپ نہ ہو اس وقت تک اس کو بتایا نہ جائے، پھر اس مختصر عبارت میں فصاحت و بلاغت انتہائی بلندی پر ہے ، لفظی و معنوی محسّنات بدیع کو اس طرح نظم کردیا گیا ہے کہ انسان جھومنے لگتا ہے، چنانچہ کلام کو کلمہ کہا گیا ہے حالانکہ یہ دو مستقل جملے ہیں اس کو کلمہ کہنا عرفی معنی میں ہے ، اس کلام اعجاز میں انتہائی ایجاز ہے، اور یہ باب تشویق و تقریب سے ہے۔
حبیبتان اسم مفعول کے معنی میں ہے جب وہ کلمہ اﷲ تعالی کا محبوب ہے تو صاحب کلمہ یعنی اس کلمہ کو بولنے والا کس قدر محبوب ہوجاتا ہے ، یہ علم بلاغت میں مجاز مرسل کی قسم سے ہے، حبیبتان کو مؤنث لایا گیا ہے جبکہ مؤنث لانا ضروری نہیں تھا ، کیونکہ صفت کا صیغہ اسم مفعول کے معنی میں ہو اور وہ تثنیہ ہو تو مذکر و مؤنث دونوں برابر ہیں، مگر حق جوار کو ملحوظ رکھا گیا۔
اس کے پڑوسی خفیفتان اور ثقیلتان ہیں جو اسم فاعل کے معنی میں ہے، ان میں تاء تانیث ضروری ہے اور حبیبتان میں تاء تانیت ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ اسم مفعول ہے اور وہ مذکرو مؤنث دونوں کی صفت بن سکتا ہے مگر جوار کا لحاظ کرتے ہوئے اس میں ت لائی گئی ہے۔
خفیفتان علی اللسان اس میں خفیفتان کا لفظ بتارہا ہے کہ یہاں زبان کو ایک بار بردار سے تشبیہ دی گئی ہے اورکلمتان کے تلفظ کو اس پر لدے ہوئے سامان سے تشبیہ دی گئی اور یہاں مشبہ بہ کو حذف کرکے مشبہ کو ذکر کیا گیا ہے ، اور اس پر دلالت کرنے والا لفظ خفت لایا گیا جو اس کا لازمہ ہے، اس کو بلاغت میں استعارۂ مکنیہ کہتے ہیں۔
خفیفتان اور ثقیلتان دونوں ضدان کو جمع کیا گیا اس کو علم بدیع میں طباق کہتے ہیں اور خفت علی اللسان کا مقابلہ ثقل فی المیزان سے کیا گیا ہے، یہ علم بدیع کی اصطلاح میں مقابلہ کہلاتا ہے، حبیبتان للرحمن کے بجائے حبیبتان الی الرحمن میں لفظ الی ثقیلتان علی اللسان میں علی کے ہم وزن ہے، علی کے ہم وزن لفظ ’’الی‘‘ کو لایا گیا ہے، اسکو موازنہ کہتے ہیں اور تمام کلمات کے فواصل آخری حروف میں ہم وزن ہیںیہ سجع کی ایک پسندیدہ قسم ہے۔
کلمہ تسبیح:
کلمہ تسبیح سے مراد اﷲ تعالی کی پاکی بیان کرنا اور حمد سے مراد اﷲ تعالی کے تمام صفات کمال کو بیان کرناہے، تسبیح میں صفات تنزیہیہ کا اور حمد میں صفات کمال کا اثبات ہے، اس تسبیح یعنی سبحان اللہ وبحمدہ میں اﷲ تعالی کے تمام صفات جلال و اکرام کا ذکر ہے۔
تسبیح تخلیہ ہے اور حمد تحلیہ ہے ، چونکہ ’’تخلیہ‘‘ ،’’تحلیہ‘‘ پر مقدم ہے اسی لئے سبحان اﷲ کو مقدم اور و بحمدہ کو مؤخر رکھا گیا ہے اور جب بندہ یہ دو کلمے بولتا ہے تو وہ اﷲ تعالی کے ذاتی و فعلی، جلالی و اکرامی تمام صفات کا ذکر کرتا ہے ، تسبیح کے ساتھ تحمید کا ذکر اس لئے بھی ہے کہ صفات تنزیہیہ کے ثبوت سے صفات کمال سے اتصاف ضروری نہیں ، مثلاً کوئی شخص بخیل نہ ہوکر بھی جواد اور سخی نہیں ہوتا اور جس میں اکرامی واجلالی دونوں قسم کی صفات بہ کمال پائی جاتی ہیں تو اس کو عظیم کہتے ہیں کیونکہ کسی کی عظمت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خلاف شان کوئی چیز نہ ہو اور لائق شان ہر بات اور ہر چیز موجود ہو، جب اس کا اس قدر عظیم ہونا معلوم ہوجائیگا تو اظہار تعجب میں لفظ سبحان خود بخود دوبارہ جاری ہوجائیگا اسی لئے پھر وہ دوبارہ سبحان اﷲالعظیم کہنے لگے گا ۔
لفظ سبحان کے معنی مجرد میں باب فتح سے تیرنا، دور ہونا، پاک ہونا اور پاکی بیان کرنا ہے اور یہ لفظ بطور استعارہ ستاروں کی گردش اور گھوڑوں کا دوڑنا اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کرنے کے لئے آیا ہے، اورعبادات میں تسبیح کا لفظ قول، فعل اور نیت سب کو شامل ہے۔ اسمائے جلالہ جوقیفی ہیں اس میں ایک صفتی نام سبوّح اسی سے ہے ۔
اس حدیث شریف کے آغاز میں اﷲ تعالی کی صفت رحمن کا ذکر ہے ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان دو کلموں کا جو ثواب اور فائدہ ہے تم اس میں تعجب مت کرو کیونکہ یہ دو کلمے اس ذات کو پسند ہیں جورحمن ہے اور یہ اسکی صفت رحمن کا ظہور ہے اور وہ بہت مہربانی کرنے والا اور بہت فضل کرنے والا ہے۔ اور اس حدیث شریف کو اﷲ کی صفت عظیم پر ختم کیا گیا ہے اور عظیم اس ذات کو کہتے ہیں جس کو کوئی چیز بھی کسی چیز سے روک نہیں سکتی اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہوتا ہے، تم اس کی نافرمانی مت کرو ۔ اس کا اعلان ہے ’’اَمْ حَسِبَ الذِّیْنَ اجْتَرَحُوْا الْسَّیِّئَاتِ اَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالذِّیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائٌ مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتِہِمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنْ ‘‘(الجاثیۃ:۲۱) برے کام کرنے والے کیا یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم ان کو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر کردینگے کہ ان کی زندگی اور موت یکساں ہوجائے۔ وہ کس قدر برا فیصلہ کر رہے ہیں۔ اسی لئے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اﷲ نے بعض بزرگوں کے قول کو نقل کیا ہے کہ اس تسبیح وتحمید کی فضیلت اور اس کا فضل ان لوگوں کے لئے ہے جو گناہوں سے دور اور پاک رہتے ہیں، اگر گناہگار توبہ کریں تو اس تسبیح کا فضل ان کو بھی حاصل ہوجائیگا، رحمن وعظیم دونوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ ان دو صفتوں کے ذکر سے الاِیمان بین الخوف والرجاء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
اگر کوئی شخص صبح وشام اس تسبیح کو پڑھتا رہے اور اس کا ذکر کرتا رہے تو اس کو ظاہر وباطن کی پاکیزگی اور امراض سے شفاء حاصل ہوگی، اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں تو بھی اﷲ تعالی معاف کردیگا۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ’’من قال’’ سبحان اﷲ وبحمدہ‘‘ فی یوم مائۃ مرۃ حطت خطایاہ وان کان مثل زبد البحر، وفی روایۃ عن ابی صالح: من قال حین یمسی وحین یصبح ‘‘
جو شخص صبح وشام سبحان اﷲ وبحمدہ کو سو ۱۰۰ مرتبہ پڑھیگا سمندر کے جھاگ کے برابر گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔اور یہ تسبیح چار اذکارکا خلاصہ ہے سبحان اﷲ والحمد ﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر سبحان اﷲ تنزیہ وتقدیس ہے اس میں لا الہ الا اﷲ داخل ہے۔ اور الحمد ﷲ میں اللہ کے لئے تمام کمالات کا اثبات ہے اب اس سے بڑا کوئی نہیں ہوسکتا اسی لئے اس میں اﷲ اکبر داخل ہے، اور یہ جملہ چار اذکار کا خلاصہ ہوا ۔
اور تسبیح کو مکرر لانے کی ایک وجہ تو ہم ذکر کرچکے ہیں۔
(۱) کہ انسان کو جب کمال الہی کی معرفت ہوجاتی ہے تو طبیعت خود بخود اظہار تعجب میں سبحان کی تکرار کا تقاضہ کرتی ہے ۔
(۲)اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سبحان کی تاکید اس کے زائد اہتمام کے لئے ہے کیونکہ حمد کرنے والے تو سب ہیں، مگر تسبیح کرنے والے سب نہیں ہیں کفار مشرکین مخلوق کو خدا قرار دیتے ہیں۔ اور یہود حضرت عزیر علیہ السلام کو اور نصاری حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں یہ سب اسکی شان تقدیس وتسبیح کے خلاف ہے اس لئے اسکی تکرار لائی گئی ہے، اور قرآن پاک میں یہ لفظ اسی لئے مختلف صیغوں میں آیا ہے، سبحان مصدر اور سبح فعل ماضی اور یُسَبّحُ فعل مضارع۔ سَبِّح فعل امر متعدد صیغوں میں اسکا استعمال ہوا ہے۔
(۳) اور ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اﷲ تعالی کے کمالات کا ادراک عقل سے مشکل ہے البتہ تنزیہات کا ادراک عقل سے ہوسکتا ہے، عقل یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالی میں جہاں نہیں لیکن اس کے علم کے کمال کا ادراک عقل سے ممکن نہیںاور تنزیہات کے ذریعہ اسکے کمالات کا اظہار ہوسکتا ہے ، مثلاً کسی کے علم کے کمال کی انتہا کو جاننا دشوار ہوتا ہے اور اسکی معرفت اور ادراک کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یوں کہا جائے وہ کسی چیز سے جاہل نہیں ہے، یہ اسلوب بیان منجملہ تنزیہات کے ہے اور تنزیہات کو تسبیح کہتے ہیں،یہ بھی سبحان کو مکرلانے کی وجہ ہو سکتی ہے۔
تسبیح کا کامل طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے ظاہری وباطنی تمام طاقتوں کو اسکے لئے استعمال کرے بندہ جب اپنی زبان سے اپنے اعضاء وجوارح سے اپنے دل اور اپنی جان سے خدا کی تسبیح وحمد کریگا تو ظاہر ہے وہ ظاہری وباطنی ہر گناہ سے دور رہیگا اور وہ شریعت مطہرہ پر سب سے زیادہ عمل کرنے والا ہوجائیگا، اور ہر وقت توبہ واستغفار کریگا اور رجوع الی اﷲ رہیگا۔ اوراس کی زندگی میں خوف اور رجاء کی کیفیت رہیگی وہ گناہوں سے بھی پاک ہوگا اور ظاہری امراض سے بھی اسکو شفاء ملے گی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کی مسند میں روایت ہے ’’عن قبیصۃ بن المخارق قال: أتیت رسول اﷲ ﷺ فقال لي: یا قبیصۃ ماجاء بک ؟قلت :کبرت سني ورق عظمي فأتیتک لتعلمني ما ینفعني اﷲ عزوجل بہ قال: یا قبیصۃ ، ما مررت بحجر و لا شجر و لا مدر اِلا استغفر لک یا قبیصۃ اِذا صلیت الفجر فقل ثلاثا: سبحان اﷲ العظیم وبحمدہ، تعافی من العمي والجذام والفالج یا قبیصۃ قل: اللہم انی اسئلک مما عندک وافض علیّ من فضلک وانشر عليّ رحمتک وأنزل عليّ من برکاتک ‘‘۔(مسند احمد حدیث رقم: ۲۰۲۰۵)
ترجمہ :حضرت قبیصہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا :ائے قبیصہ تم کو کیا چیز لائی ہے؟ تو میں عرض کیا: میری عمر زیادہ ہوگئی ہڈیاں میری کمزور ہوگئی ہیں، میں آ پ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تا کہ آپ مجھے وہ چیز سکھائیں جس کے ذریعہ اللہ بزرگ وبر تر مجھے فائدہ اور نفع عطاء کرے، تو آپ نے فرمایا:ائے قبیصہ تم کسی پتھر اور درخت اور اینٹ کے پاس سے نہیں گذروگے مگر وہ تمہارے لئے استغفار کریگا، ائے قبیصہ جب تم فجر کی نماز پڑھو تو تین مرتبہ سبحان اللہ العظیم وبحمدہ پڑھو تو تم اندھے پن سے جذام اور فالج سے محفوظ رہوگے،ائے قبیصہ تم کہو: ائے اللہ میں تجھ سے اس میں سے جو تیرے پاس ہے مانگتا ہوں، اور تو مجھ پر اپنے فضل کا فیضان کر اور اپنی رحمت کو مجھ پر پھیلا دے اور مجھ پر اپنی برکتوں کو نازل فرما۔
جو شخص اس تسبیح کو فجر کے بعد تین مرتبہ پڑھیگا وہ اندھے پن ، جذام اور فالج سے محفوظ رہتا ہے۔
اس آخری حدیث شریف کے معانی اور اسکی شرح بہت ہے وزن اعمال انسان کے لئے شریعت پر عمل کا آخری مرحلہ ہے ،اس کے بعد کوئی عمل کی دنیا نہیں ہے بلکہ ابدی ٹھکانہ ہے اور اس آخری عنوان میں قسطاس ومیزان کا ذکر اس بات کا اشارہ ہے کہ بخاری شریف ہر ایک کے لئے قسطاس ومیزان ہے ،اﷲ تعالی جسکو توفیق دے اسکے لئے آسان ہے ہم اﷲ تعالی سے توفیق مانگتے ہیں انسان کی کامیابی حسن خاتمہ پرہے، اس لئے ایمان سے اپنی کتاب کو شروع کئے اور توحید پر ختم کئے ہیں اور کامیاب ونا کام آدمی کی پہچان وزن اعمال کے بعد ہوتی ہے، اس لئے آخری عنوان وزن اعمال کا قائم کئے اور وزن اعمال کا پلہ جس چیز سے بھاری ہوتا ہے، اس کو آخری حدیث شریف بنا دئیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اﷲ تعالی کے صفات تقدیس وتحمید کو اختیار کرو اپنی نیت اور عقیدہ وعمل کو عیوب سے پاک رکھو، اور خود کو کمالات کا جامع بناؤ تو اﷲ کے پاس محبوبیت کی صفت کے حامل ہوجاوگے اور مخلوق میں بھی تمہاری محبت ڈالدی جائیگی دنیا وآخرت کی کامیابی ہر جگہ تمہاری رفیق رہے گی۔
آخر میں اس حدیث شریف کو ذکر کرنے میں اس بات کی ترغیب ہے کہ تم ہمیشہ ذکر الہی میں مشغول رہو،اور ہر سانس میں ذکر ہوتا رہے۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے وسبح بحمد ربک (النصر:۳)تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو، اس میں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے اور فرشتوں کا بھی وظیفہ یہی ہے ’’یسبحون بحمد ربہم‘‘(الشوری : ۵) اور اہل جنت کا بھی وظیفہ یہی ہے اور مجلس کا کفارہ بھی تسبیح سے ہوتا ہے۔ یہ آخری باب اور یہ آخری حدیث شریف حسن خاتمہ اور مسک الختام ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے مجلس کے ختم پر حضور پاک ﷺ کے لبہائے مبارک حرکت کرتے تھے تو میں دریافت کی تو آپ نے فرمایا: اس دعا کو پڑھے اور فرمائے یہ کفارۂ مجلس ہے ’’سبحانک اللہم وبحمدک أشہد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک‘‘۔
امام بخاری کو انکی شرط کے مطابق تسبیح کی جو حدیث شریف ملی ہے وہ خلاصۂ شریعت ہے اور کفارۂ مجلس بھی ہے اس کو بطور خلاصہ آخر میں کفارہ مجلس کے لئے سب سے آخر میں لایا، شارحین بخاری لکھتے ہیں کہ شروع اور آخر کی حدیث شریف سے امام بخاری نے اپنا عمل بتایا ہے تا کہ دوسرے بھی اسی طرح عمل کریں کہ نیت اچھی رکھیں اور تسبیح وتحمید کو اپنا وظیفہ بنا لیں۔
اور کمال کی بات تو یہ ہیکہ امام بخار ی اتنا سب کچھ بتا رہے ہیں مگر آخر میں اپنا کوئی لفظ اور اپنا کلمہ نہیں لائے اور نہایت جامع حدیث شریف کو اپنی کتاب کا آخری کلمہ بنایا وﷲ الحمد اولا وآخرا۔ سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم۔
ززز