بنائے مساجد و قیام مدارس دینیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کا حصہ

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔
اما بعد :

قال اللہ تبارک وتعالی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم یَرْفَعُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر۔
ترجمہ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جو اہل علم ہے اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے (سورہ مجادلہ، آیت:۱۱) قابل احترام صدر مکرم شیخ الجامعہ مفتی خلیل احمد صاحب المکرم اور شہ نشین پر جلوہ فرما معزز مہمانانِ کرامِ اہل علم و دانشوران قوم و ملت اور قابل اکرام سامعین و شامیات ۔میرے مقالے کا عنوان ہے بنائے مساجد و قیام مدارس دینیہ میں حضرت شیخ الحدیث کا حصہ

مسجد کی اہمیت اس کا مقام و مرتبہ اسلام میں کتنا ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے جاتے ہوئے اہل قبا کے پاس چنددن کے قیام فرمائے تھے اس اثنا میں آپ صحابہ کرام کو جمع فرمائے اور ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لمسجد اسس التقویٰ اور جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو رہنے کے لئے اپنے مکان کی جانب توجہ نہیں فرمائی بلکہ سب سے پہلے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں مسجد کی کتنی اہمیت ہے اور اس کا کیا مقام ومرتبہ ہے۔

مسلمان اور مسجد لازم وملزوم ہے ۔ ایسا ہونہیں سکتا کہ کہیں پر مسلمان رہتے بستے ہوں اور اس مقام پر مسجد نہ ہو۔ اگرچہ مسلمان کے لئے مسجد کے علاوہ اپنے گھر یامیدان یا جنگل میں نماز ادا کرنا درست ہے کیونکہ رحمۃ للعالمین کی امت کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا فرمایا کہ اس کے لئے ساری روئے زمین کو پاک اورسجدہ گاہ بنادیا۔ مسلمان جہاں چاہے وقت پر نماز اداکرسکتا ہے مگر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز باجماعت اداکرنیکا جو مقام ومرتبہ بیان فرمایا اور اسکا جو ثواب بتائے ہیں اس ثواب کے حصول کے لئے مسجد کا ہونا ضروری ہے مسجد میں جماعت سے نماز گھر کی نماز سے پچیس درجے زیادہ ہے پھر جامع مسجد پھر تین مساجد مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کا ثواب اور مسجد نبوی میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ۔ اور مسجد اقصٰی میں پچیس ہزار نمازوں کا ثواب اور مسجد قبا میں دو رکعت نفل نماز کا ثواب ایک عمرہ مقبول کا ثواب ہے ان احادیث مبارکہ سے مساجد کی تعمیر اور اسکی آبادی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

قارئین کرام! ہر دور میں مساجد کی ضرورت ہوتی رہی اور اسکی طرف امت مسلمہ توجہ کرتی رہی۔ اورحسب ضرورت وحسب استطاعت مساجد کی تعمیرکرتی رہی۔

حضرت شیخ الحدیث ؒ بھی ان حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے مسجد کی سنگ بنیاد ڈال کر اپنے لئے جنت میں ایک محل کے حق دار بن گئے‘ شیخ الحدیث ؒ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ کئی مساجد کی تعمیر کئے اور کئی مساجد کی سنگ بنیاد رکھے تعمیر کا مطلب آپ یہ نہ خیال کریں کہ پوری مسجدایک ہی آدمی بنائے تو اسکو اسکی تعمیر کہیں گے۔ بلکہ تعمیر مسجد میں تھوڑأ بہت حصہ لیں یا انکے ذریعہ مسجد بنائی گئی تو اسکی تعمیر کی نسبت اسی کی جانب کی جائیگی۔

ویسے تو بہت سے مساجد ہیں جس کاسنگ بنیاد آپ نے رکھا مگر یہاں پر صرف ان مساجد کاذکرکیا جارہاہے جوراست آپکی نگرانی میں اور آپکی تو جہہ دہانی سے تعمیر کی گئی اور جہاں پر مساجد کی ضرورت تھی ان میں سے ایک تو المعھدالدینی العربی ہیں جومسجدطیبہ ہے وہ آپ ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوئی جسکو بدرالہندی نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے تعمیرکروائی ۔

دوسری مسجد آثار عمرفاروق۔ نلدرک ضلع عثمان آباد،مہاراشٹر  اور ایک مسجد اسی گائوں میں ملتان محلہ میں تعمیر کروائی اس محلہ میں ایک بڑاعاشورخانہ تھا جہاں پر صرف محرم کے دس دن علم ایستادہ کئے جاتے پھرسال بھر وہ ویران رہتا تھا آپ اس محلہ کے لوگوں کو جمع کرکے مسجد کی اہمیت وفضیلت کو بتاتے ہوئے عاشورخانہ کے نامناسب رسوم ورواج کو ختم کرنیکی تلقین کی اور اسکا اثریہ ہواکہ وہ لوگ مسجد کی تعمیر کے لئے آمادہ ہوگئے اور عاشورخانہ ہی کو مسجد میں تبدیل کردیا اور حکمت عملی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ حصہ عاشور خانہ کے لئے چھوڑ دیا۔

ایک اور مسجد بنام مسجد انوار متصل دار العلوم محبوبیہ حسن نگر کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور اس کی تعمیر حمود علی شہی صاحب (ایک عرب) نے کی اور اس کے تمام انتظامات و نگرانی حافظ محمد نصیر الدین صاحب کے ذمہ ہے۔

اور ایک مسجد بنام مسجد رَباح محلہ تالاب کٹہ بھوانی نگرمیں ڈاکٹر وحید احمد اکرمی بیطار (کویت) نے اپنی زوجہ رَباح کے نام سے 1997 میں تعمیر فرمائی جواس وقت مولانا سید نعمت اللہ قادری صاحب کے زیرنگرانی ہے اس مسجد کی توسیع کرنے والے محمد احمد ابراہیم علی تقالی ہیں، اوراس سے متصل آپکا ایک مدرسہ انوارالعلوم العربیہ چل رہاہے۔ اور کچھ عرصہ قبل ایک مسجد بنام مسجدلئیق النساء جڑچرلہ ضلع محبوب نگر میں تعمیر کروائی اور اس تعمیر کے پورے اخراجات جناب محمد سلیم صاحب چیرمین وقف بورڈ نے اداکئے۔

ایک اور مدرسہ دار العلوم محبوبیہ جس کے بانی مولانا حافظ محمد نصیر الدین نقشبندی صاحب ہیں، اس مدرسہ کی زمین کے حصول کیلئے حضرت شیخ الحدیثؒ بہت زیادہ جدوجہد کے ذریعہ حاسل کئے، محترم رحمت اللہ صاحب حال مقیم دبئی، اپنے والدین اور بھائی کے ایصال ثواب کے لئے اس مدرسہ کیت عمیر کی مکمل ذمہ داری لیکر کام کو تکمیل کیا۔

آپ کا جامعہ نظامیہ میں تقرر سے پہلے ایک مدرسہ بنام مدرسہ مؤتمر العلماء کے نام سے مغل گدہ ضلع محبوب نگر میں قائم فرمائے تھے اور مہتمم کی حیثیت سے اسی مدرسہ میں کام کر رہے تھے، اس وقت آپ کی ماہانہ یافت 150 روپئے تھی، اس وقت کے اعتبار سے یہ مناسب تنخواہ تھی مگر آپ کے استاذ مکرم حضرت علامہ مفتی محمد عبدالحمید صاحب شیخ الجامعہ کے کہنے پر حضرت شیخ الحدیث اس مدرسہ کی صدارت چھوڑ کر جامعہ نظامیہ میں بحیثیت مہتمم کتب خانہ 75 روپئے ماہانہ یافت پر تشریف لائے۔ اس وقت آپ آمد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے مفتی عبدالحمیدؒ نے فرمایا تھا اللہ کی کیا شان ہے کچھ لوگ ہیں کہ جامعہ نظامیہ کی خدمت کیلئے بڑی تنخواہ کو چھوڑ کر آرہے ہیں اور کچھ لوگ ہیں کہ بڑی تنخواہ کیلئے جامعہ کو چھوڑ کر جارہے ہیں۔

آپ کو بچیوں کی تعلیم و تربیت میں دوسروں علماء سے زیادہ فکر لاحق تھی ہمیشہ طالبات کی تعلیم و تربیت کی طرف بہت زیادہ فکر مند نظر آتے۔ قدیم شہر حیدرآباد میں تو بہت سے مدارس دینیہ لڑکیوں کیلئے ائم ہیں مگر نئے شہر میں اور ٹولی چوکی کی جانب دور دور تک کوئی مدرسہ لڑکیوں کیلئے موجود نہیںتھا تو آپ ایک مدرسہ ’’مدرسہ رفیق النسائ‘‘ کے نام سے نانل نگر میں قائم فرمایا۔

محترمہ لئیق النساء صاحبہ نے اس مدرسہ کیلئے ایک عمارت عطا کی تو شیخ الحدیث نے ان کی والدہ مرھومہ رفیق النساء کے نام سے یہاں پر لڑکیوں کیلئے مدرسہ قائم کیا اور یہ اس وقت بہت اچھے انداز سے چل رہا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور مدرسہ جو حضرت شیخ الجامعہ مفتی خلیل احمد صاحب مدظلہ العالی اور شیخ الحدیث کی خصوصی توجہ و دلچسپی سے قائم ہوا بنام ’’مدرسہ متوسطہ العربیہ‘‘ ٹولی چوکی آدم کالونی مسجد سلمیٰ میں چلایا جارہا ہے۔

یہ وہ چیزیں ہیں جس سے راقم الحروف واقف ہے نہ جانے اس کے علاوہ اور کیا کیا خدمات آپ کے ہیں جو مجھے معلوم نہیں ہے۔

رہا دینی مدارس اس کی اہمیت وافادیت کے متعلق میں کیا بیان کرسکتاہوں اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اسکو ظاہر کرنیکے لئے الفاظ نہیں ملتے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بعثت مُعَلِّمًا ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ صحابہ کرام مسجد نبوی میں دو حلقے بنائے ہوئے تھے کچھ صحابہ یاد الٰہی ذکر باری تعالیٰ میں مشغول تھے تو کچھ صحابہ قرآن شریف کی تعلیم میں اسکے سیکھنے سکھانے میں مصروف تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے دیکھے کہ صحابہ قرآن اور علم دین کے سیکھنے میں اور کچھ صحابہ ذکر میں لگے ہوئے ہیں فرمایا کلاھما علی الخیر تم دونوں بھی خیر پر ہومگر اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم بناکر بھیجاہے‘ یہ فرماتے ہوئے تعلیم کی مجلس میں جلوہ افروز ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان اور آپکا عمل ان دونوں باتوں سے دینی اساتذہ اور طلبہ کی اہمیت اور انکا مقام ومرتبہ اسلام میں کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اشاعت اسلام کے مشکل دور میں بھی حضرت ارقم بن ارقم کے  گھر میں صحابہ کو جمع فرماتے اور قرآن کی دین کی اور عقیدہ وایمان کی تعلیم فرماتے تھے ‘ اسی لئے دار ارقم کو اسلام کا سب سے پہلا مدرسہ ہونیکا شرف حاصل ہوا عزیزان گرامی ہمارے رسول نبی امی کا یہ عمل مسلمانوں کو اس بات کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ تم پر کیسی ہی مصیبت تکلیف پریشانی کیوں نہ آئے تم کو دین کی حفاظت کرنا ہے اور دین کو باقی وقائم رکھنا ہے اور دین پر عمل کرنا ہے اور دین پر عمل کرنیکے لئے دینی تعلیم ضروری ہے ۔

اسی دینی تعلیم کے لئے دینی مدارس قائم کئے جاتے ہیں دنیامیں دینی مدارس کا جال پھیلا ہواہے۔بہت سے مخلص علماء کرام نے دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا‘ انہی مخلص اور باکمال اہل اللہ میں سے ایک ذاتِ شیخ الحدیث کی ہے جودینی مدارس کے متعلق فرماتے تھے کہ دینی مدارس کو چلانے کیلئے نہ زمین کی ضرورت ہے اور نہ عمارت کی ضرورت ہے اورنہ پیسے کی ضرورت ہے ۔ یہ صرف آپکے الفاظ ہی نہیں تھے بلکہ آپ نے عملابتادیاکہ حقیقت یہی ہے

حضرت شیخ الحدیثؒ سب سے پہلے جو مدرسہ اننت پور (آندھراپردیش) میں قائم فرمائے تو کوئی عمارت نہیں تھی اور نہ اس مدرسہ کی کوئی زمین تھی اخلاص کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تین بچوں کو لیکر تعلیم شروع کردی اور یہ مدرسہ قائم ہوگیا۔ اور آج یہ مدرسہ بہت وسیع و عریض جگہ اور عالیشان عمارت میں قائم ہے۔

المعہد الدینی العربی: آج سے پینتیس سال قبل مسجد چمکورہ کے ایک ٹین کے ڈھالیہ کو کرایہ پر لیکر شروع کیا گیا، اس میں آپ کا مقصد یہ تھا کہ حیدرآباد دکن ہندوستان میں ایک ایسا مدرسہ قائم ہو جس کا میڈیم عربی ہو اور جس طرح انگلش میڈیم کے طلبہ روانی کے ساتھ انگریزی بولنے پر قدرت رکھتے ہیں اسی طرح اس مدرسہ کے طلبہ عربی بولنے پر قادر ہوں اور وہ عربی میں بات کرنے اور لکھنے پڑھنے کے قابل بنیں۔

طلبہ کو اس بات کی طرف توجہ دلانے کیلئے آپ ہمیشہ یہ فرماتے تھے: ’’من تکلم بالعربیۃ کان کلامہ ذکرا‘‘  المعہد الدینی العربی کی جب مستقل عمارت قائم ہوئی اور باضابطہ جماعت نئی عمارت میں چلنے لگیں تو آپ اس کرائے کے ڈھالنے میں جزوقتی طلبہ جو دن میں کالج میںتعلیم حاصل کرتے ہیں یا کاروبار یا نوکری کرتے ہیں ان کیلئے بعد نماز عصرتا عشاء دینی تعلیم اورمولوی و عالم کی تیاری کراکر جامعہ نظامیہ سے امتحانات دلواتے اس طرح کئی طلبہ یہاں تعلیم حاصل کر کے جامعہ نظامیہ سے مولوی کامل تک پہنچے۔

اسی مقام پر آج دن میں مدرسہ معہدالبنات نفیس النساء کے نام سے لڑکیوں کیلئے ابتدائی دینی تعلیم اور شعبہ حفظ قائم ہے۔ اس کے علاوہ آپ ٹولی چوکی میں ایک مدرسہ برائے خواتین قائم فرمایا اور اس کا نام مدرسہ لئیق النساء رکھا۔

اس کے علاوہ آپ گلبرگہ میں سجادہ نشین صاحب حضرت بندہ نواز گیسودراز سید محمد محمد الحسینیؒ کی توجہ و دلچسپی اور آپ کے اصرار پر دار العلوم دینیہ بارگاہ بندہ نواز جامعہ نظامیہ سے گلبرگہ تشریف لے گئے اور وہاں پر ابتدائی دینی تعلیم کے علاوہ عالم جماعت تک کی تعلیم کا انتظام فرمایا اور ابتداء میں دو سال تک خود وہاں پر قیام فرماکر نہ صرف طلبہ جماعت عالم کو مختلف علوم و فنون کی تعلیم دی بلکہ وہاں کے اساتذہ کرام کی دو سال میں ایسی تربیت کی کہ وہ بعد میں عالم تک کے جماعتوں کی تعلیم دینے لگے۔ راقم الحروف ان دنوں جماعت عالم دوم میںتھا اس وقت حضرت شیخ الحدیثؒ ہم کو ترمذی شریف جلد دوم کی تعلیم دے رہے تھے کہ آپ کو گلبرگہ روانہ کردیا گیا۔

گلبرگہ میں آپ سے عالم جماعت کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں ایک دو نام یہ ہیں ڈاکٹر محمد عبدالحمید اکبر صاحب جو اس وقت صدر شعبہ اردو یونیورسٹی کی حیثیت سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے اور مولانا محمد مدثر صاحب بانی مدرسہ انوار الاسلام و لکچرار ٹیپو سلطان یونانی میڈیکل کالج گلبرگہ اس کے علاوہ آپ اورنگ آباد میں جو دینی مدرسہ بنام مدرسہ مصباح العلوم عالیہ کمالیہ آج اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ قائم ہے، اس کے قیام میں بھی آپ  کا بہت بڑا حصہ ہے۔ بڑے حاجی صاحب جو اس مدرسہ کے بانی ہیں۔ہمیشہ آپ سے مشورہ لیتے اور اس کے ملطابق مدرسہ کو چلاتے۔

حضرت مولانا ڈاکٹر شیخ محمد عبد الغفور صاحب حفظہ اللہ
شیخ التجوید ،جامعہ نظامیہ