حضرتِ خواجہ شریف ؒ ایک صوفی صافی بھی تھے

0

الحمد لله وکفیٰ والصلوة والسلام علیٰ رسوله وحبیبه سیدنا محمدنا المصطفیٰ وعلیٰ آله وصحبه مصابیح الصدق والصفا اما بعد فقال الله تعالیٰ فی الکتاب القدیم، والخطاب العظیم ،اعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ،قد افلح من زكها۔(سوره شمس آیت :۹)

کارخانہ قضاء وقدرکا یہ غیبی نظام ہے کہ اس خاکدان رنگ وبومیں روزانہ لاتعداد بنی آدم جنم لیتے ہیں اور اسی طرح بے شمار انسان اس عالم فانی کو خیر آباد کہتے ہوئے رب ذوالجلال سے جا ملتے ہیں ،جن میں بعض ایسے نفوس قدسیہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے کرداروسیرت کے قابل قدر نمونے اور اپنے کارہائے نما یاں کے ایسے یادگار نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو دوسروں کیلئے مثالی اور قابل تقلید بن جاتے ہیں ۔ایسی ہی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت علامہ محمد خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی ہے جن کا حال ہی میں ہوا سانحہء ارتحال جامعہ نظامیہ کا ہی نہیں بلکہ قوم وملت اوربالخصوص علمی ‘عرفانی اور تحقیقی میدان سے متعلق سارے لوگوں کا ناقابل تلافی نقصان ہے ۔دینی ادب اور علوم وفنون میں آپ کی ہمہ جہت ذات مجمع الصفات تھی آپ ہرفن مولا اور ساری علمی خوشبوؤں کا گویا عطر مجموعہ تھے ۔ آپ ایک طرف عربی ادب وکلام ‘ فصاحت وبلاغت ‘شعر وسخن اور حدیث وفقہ وغیرہ کئی علوم میں خدا داد کمال رکھتے تھے تو دوسری طرف تصوف و عرفانیت ‘طریقت ومعرفت جیسے باطنی وروحانی علوم میں بھی اعلیٰ دستگاہ کے حامل تھے ۔دوسرے الفاظ میں آپ اپنے میں شریعت و طریقت کانہایت اعلیٰ حسین امتزاج رکھتے تھے گویا ایک عالم دین ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک صوفی باصفااور عارف باللہ بھی واقع ہوئے تھے جو ایک عظیم محقق کے اوصاف ہوتے ہیں ۔ حضر ت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے حضرت امام مالکؒ کایہ ارشاد اپنے ملفوظات میں نقل فرمایا ہے’’ .من تفقہ بغیر تصوف فتفسق ومن تصوف بغیر تفقہ فتزندق ومن جمع بینھما فتحقق‘‘
’’یعنی جو تصوف کے بغیر فقیہ (ماہر شریعت )بنا وہ فاسق ہوا جو فقہ کے بغیر صوفی بن بیٹھا وہ زندیق ہوا جو دونوں کا جامع ہواوہ محقق ہوا‘‘
چنانچہ بانیء جامعہ نظامیہ کا مزاج بھی محققانہ تھا علوم شریعت کی تعلیم تو جامعہ کے سب ہی طلبہ حاصل کیا کرتے تھے ۔علاوہ ازیں آپ کا ایک علیٰحد ہ ’’حلقہ تصوف ‘‘بھی ہوا کرتا تھا جس میں گنے چنے منتخبہ اہل ذوق اصحاب ہی کو بیٹھنے کی اجازت تھی حسن اتفاق سے حضرت فضیلت جنگ حافظ محمد انواراللہ فاروقی قدس سرہ اپنی سیدھی جانب اپنے تلمیذ خاص یعنی میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی سید شاہ احمد علی صوفی حسنی حسینی قادری ؒ المعروف بہ ’’سید الصوفیہ‘‘کو بٹھاکر ان سے شیخ محی الدین ابن عربی ؒ کی شہرہ آفاق تصوف کی کتاب ’’فتوحات مکیہ ‘‘کی عربی عبارت پڑھواتے اور خود بانی جامعہؒ اسکی تشریح میں نہایت عارفانہ وصوفیانہ رموز ونکات بیان فرمایا کرتے تھے۔
عربی لفظ ’’صوفی‘‘کے لغوی معنی ہیں مخلص ‘متقی‘پارسا‘پاک وصاف‘پرہیز گار‘پاک نفس اور پشمینہ پوش اوراصطلاحاً مسلمانوں کے نزدیک صوفی وہ ہے جس میں اعلی درجہ کا خلوص اور حقائق کے ادراک کی استعداد ہو ظاہری وباطنی طور پر قلب نفس اور روح پاکیزہ ہوں کیونکہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے مقاصد میں سے اہم مقصد اور آپکے فرائض رسالت میں اولین فریضہ کتاب وحکمت کی تعلیم سے قبل تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس ہے جسکو قرآن میں یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ (جمعہ-۲)فرمایاگیا ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم انسانوں کو پاک کرنے یاپا کی کا سلیقہ سکھانے او ران میں علم و حکمت کی نعمت تقسیم کرنے کیلئے مبعوث فرمائے گئے ’’یزکیھم‘‘ہی میں ایک صوفی کی صفت بیان فرمائی گئی اسی مناسبت سے مضمون ہذا کاعنوان وہ قرآنی آیت ’’قد افلح من زکھا ‘‘(شمس -۹)ہے جس میں ارشاد ہے کہ بے شک وہ کامیاب ہو ا جس نے اس (نفس)کو پاک کیا ۔
حضرت علامہ خواجہ شریف علیہ الرحمہ علوم شریعت کے ماہر شیخ الادب و شیخ الحدیث کی حیثیت سے بین المما لک شہرت کے حامل تھے آپ کی کئی گراں قدر تصنیفات و تالیفات او رتراجم اسکا زندہ ثبوت ہیں ۔ ان ظاہری علوم سے قطع نظر ایک صو فی کی حیثیت سے بھی آپ نے اپنے فیضان کو عام فرمایا۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں شہزادۂ امام موسی رضا رضی اللہ عنہ حضر ت علامہ سید طاہررضوی صدرالشیوخ علیہ الرحمۃ والرضوان کے خلیفہ مجاز ہونے کی آپ کو سعادت حاصل تھی بے شمار افرادو طلبہ نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور فیوض و بر کات بیکراں سے مالا مال ہوئے۔
ایک صوفی کی جانب سے اپنے مریدین و متوسلین کی جو تربیت کی جاتی ہے اس میں ذکر الہی کی کثرت کوبموجب ارشاد الٰہی ’’واذکرواللہ کثیرالعلکم تفلحون (جمعہ- ۱۰)بڑی اہمیت حاصل ہے جسکو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا چاندی خیرا ت کرنے اور جہاد کرنے سے بھی افضل قرار دیا۔ بلکہ قرآن نے ان اللہ والوں کی یہ علامت اور پہچان بھی بتلائی کہ ’’یذکرون اللہ قیاما وقعوداو علیٰ جنوبھم (آل عمران -۱۹۱)یعنی وہ کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے اور اپنے پہلووں کے بل اللہ کا ذکر کرتے ہیں
اوپر صوفیہ کرام کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ سب حضرت خواجہ شریف ؒ میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔آپ کے کردار ‘آپکے اخلاق آپ کے غیروں سے سلوک اور آپ کے عادات و اطوار میں صوفیانہ رنگ ہروقت نظرآتاتھا ۔ جہاں تک ذکر الٰہی کا تعلق ہے جو بھی آپ کی قبل وصال علالت کے دوران عیادت کی غرض سے آیاآپ کی زبان کو صرف ذکر الٰہی میں مشغول پایا حتی کہ آپ کو جب ونٹی لیٹرپر لٹایاگیا تو اس وقت بظاہر خو ابیدہ نظر آرہے تھے اسکے باجود تا دم آخر ذکر الہٰی میں برابر بلاوقفہ رطب اللسان تھے ۔ حین حیات بھی ہفتہ واراور ماہانہ اجتماعی حلقہء ذکر کا آپ بپابندی انعقادو اہتمام فرمایاکرتے تھے ۔ المختصر آپ نے اپنی زبان و قلم اور اپنی صحبت کے فیضان سے علوم ظاہر ی وباطنی کی ترویج واشاعت اور نسل نو تک اخلاقی انوار کو پھیلانے میں اپنی ساری تو انائیاں آخری سانس تک صرف کیں اور بعد والوں کیلئے ایک روشن چراغ ثابت ہوئے۔ المعھد الدینی العربی کے ذریعہ تو سرزمین ہند پر پہلے عربی میڈیم مدرسہ کے خواب کو شرمندہ تعبیرکردکھایا۔ مدارس دینیہ میں عربی زبان و ادب ،عربی بول چال اور تحریر و تقریر کے علاوہ عربی شاعری کا ذوق پیداکرنے میں آپ نے نمایاں کرداراداکیا۔علمی تبحر ،اعلی اخلاقی اقداراور ایک وضعدار و پروقار شخصیت کی حیثیت سے آپ کی شہرت ومقبولیت نے آپ کو عوام وخواص کا گرویدہ کردیاتھا جسکا ثبوت آپ کے جنازہ میں شریک انسانی سروں کاسمندرتھا۔ ایک طرف یہ سب علمی خدمات آپ کی یادگار ہیں تو دوسری طرف اپنے تلامذہ ومریدین کو آپ نے علوم وعرفان کی جوامانتیں پہنچائی ہیں وہ سب باقیات صالحات آپ کی عارفانہ وصوفیانہ شان کی ہمیشہ یاد دلاتی رہیں گی ۔ پھر آپ کی نماز جمعہ سے قبل رحلت خود ایک نور علی نو ر سعادت ہے کیونکہ ایک حدیث شریف میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے مطابق جمعہ کے دن وفات پانے والے خوش نصیب مؤمن کو شہادت کا اجر اللہ عطافرماتا ہے۔ بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ اس عالم بے مثال اور صوفی باکمال کو حق تعالی اعلٰی علّیین میں درجہ عالیہ سے نوازے او رآپ کی قبر میں نو رکے بقعے او ررحمت کے اطباق نازل فرمائے اور آپ کے پسماندگان ولواحقین اورفرزند دلبند کو صبر جمیل عطافرمائے ۔آمین

از : مفسر قرآن حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظمؔ حسنی حسینی قادری مدظلہ
صدر کل ہند جمعیۃالمشائخ