حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ اور ازدواجی زندگی

0

الحمدلله رب العلمین۔ والصلاة والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین۔ وعلی اله الطیبین الطاھرین۔ واصحا به الر اشدین الا کرمین۔ ومن تبعھم با حسان الی یوم الدین اجمعـین ۔ اما بعد! فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم ۔ بسم الله الر حمن الر حیم ۔ وعا شرو ھن بالمعروف۔ صدق الله العظیم۔

اسلام ایک جا مع اور ما نع مذہب ہے۔  اس کے احکام میں گہرا ئی اور گیرا ئی ہے۔  اس کی تعلیمات ہر خا می سے مبرہ اور ہر جھول سے منزہ ہیںــــ۔  یہ اپنے ما ننے والوں کی ہرمید ان میں رہنما ئی کر تا ہے ۔  حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ہر ایک کو وضاحت کے سا تھ بیان کر تا ہے ۔  منجملہ حقوق العباد میں حقوق زوجین بھی ہیں۔  زو جین کا ایک دوسرے کے حقوق سے واقف ہو نا اور انہیں کما حقہ‘ ادا کر نے کی سعی کر نا ضروری ہے ۔  اسی سے ایک صا لح معا شرہ کی بنیاد قا ئم ہو تی ہے ۔  میرے آج کے اس مقا لہ کا عنوان  ’’ حضرت شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ اور ازدواجی زندگی ‘‘ ہے۔

انسان تہذیب و تمدن سے ما وراء ہو کر زندگی نہیں گزا رسکتا۔  خلوت و تنہائی اس کی فطرت میں دا خل نہیں ہے۔  ازدواجی زندگی میں انسا نی زندگی کا سکون ہے۔  اور حقیقی سکون کے حصول کیلئے خدا ئی ہدا یت ور ہنما ئی لا زمی ہے ۔  رب تبا رک وتعا لیٰ نے حسن معا شرت کے جا مع اصول سے وا قف کرو ا کر انسان کو انسا نیت کی ار تقا ئی منز لوں تک پہنچا دیا ہے۔  کا میاب وکا مران ہے وہ شخص جو حقوق اللہ کی ادائیگی کے سا تھ حقوق العباد اور خاص کر حق زو جیت کے ادا ئیگی کی بھر پور کو شش کر تا ہے ۔  ہما را مشا ہدہ ہمیں یہ کہنے پر مجبور کر تا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ انہی کا میاب لوگوں میں سے ہیںجنہوں نے حقوقِ واجبہ اور حقوقِ غیر واجبہ کے تکمیل کی بھی حتی المقدور سعی کی ہے۔  عام طور پر لو گوں کا ظا ہر ایک ہو تا ہے اور با طن ایک۔  جلوت کی کیفیت الگ ہو تی ہے اور خلوت اس کے بر عکس ۔  ظا ہر و جلوت میں‘  لوگوں کے در میان تصنع و تکلف کا جا مہ زیب تن کر لیتے ہیں۔  دکھا وے اور ریا کا ری سے کام لیتے ہیں۔ تا ہم ان کا با طن و خلوت اس کی ضد ہو تا ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم ﷺنے فرمایا:  ’’ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہٖ وَ أَنَا خَیْرٌ لِأَھْلِیْ‘‘۔ تم میں بہتر ین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہوں اور میں میرے گھر والوں کے سا تھ سب سے بہتر ہوں۔  نبی پاک ﷺ نے خلوت و تنہا ئی کی بہتری کو بہتری کا معیار قرار دیا۔  اور میں بحیثیت زو جئہ شیخ الحدیث ؒ پو رے ایقان واذ عان کے ساتھ کہتی ہوں کہ حضرت شیخ الحدیثؒ کی زندگی جو ظاہر میں تھی وہی با طن میں تھی۔  آپ کی جلوت و خلوت یکساں تھی ۔  بلکہ میری نظر میں آپ کی خلوت آپ کی جلوت سے بھی بہتر تھی۔  آپؒ نے اپنی ازدوا جی زند گی کے پچپن (۵۵)سا لہ طو یل عر صہ میں کبھی حقوق کی ادا ئیگی میں کو تا ہی نہیں کی۔  ہمیشہ َرفا قت و رِفق کو اپنا شیو ہ بنا ئے رہے۔  خلوص و وفا کا پیکر رہے۔  الفت و محبت کے خو گر رہے۔  ’’وَعَاشِرُوْھُنَّ  بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ کے حکم الٰہی کے پا بند رہے۔

اپنی زو جہ یعنی مجھ پر کبھی ہا تھ اٹھا نا‘  یا سخت کلامی کرنااور غیرا خلا قی زبان استعمال کر نا تو دور کبھی اونچی آو از میں گفتگو بھی نہیں کئے۔  عسرت و تنگی کی زندگی کے با و جود تما م ضروریات کی بحسن و خو بی تکمیل کرتے رہے۔  کثیر العیال ہونے کے باوصف ان کے اخرا جات وضرو ریات کی کما حقہ تکمیل میں کوئی کسر نہیں چھو ڑے ۔  ہمارے پاس جملہ نو (۹) لڑکیوں اور ایک لڑکے کی ولادت ہوئی۔  ان میں سے دو(۲) لڑکیاں ولادت کے بعد ہی فوت ہو گئیں۔  تا ہم حضرت شیخ الحدیث ؒ ان لڑکیوں کی ولادت پر کبیدہ خاطر نہیں ہوتے تھے ۔  بلکہ خوش ہوتے تھے کہ ان لڑکیوں کی ولادت پر سلامِ رسول ﷺ آیا ہے۔  پھراس کے بعد آپ ؒ نے ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فر و گز اشت نہ کیا۔  بلکہ خود میری تعلیم بھی انہیں کی رہینِ منت ہے ۔ سدا میرے شوق تعلُّم کو مہمیز کر تے رہے۔  اپنے فرصت کے لمحات میں خود بھی مجھے پڑ ھا تے رہے اور پڑ ھنے پڑھا نے کے دیگر ممکنہ  وسا ئل بھی مہیا کر تے رہے ۔  ’’ طلب العلم فر یضۃ علی کل مسلم‘‘ کے تحت حصول تعلیم کی تر غیب و تشویق ہمیشہ آپ کا وطیرہ رہا۔  ’ ’ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَتِہٖ‘‘ کے مصداق اپنی زو جہ کے تئیں بھی اس ذمہ دا ری سے عہد ہ بر آ ہو تے رہے۔  نتیجہ میں فد و یہ نے درس و تد ریس کا ہر مر حلہ آسان پا یا۔  جامعہ نظامیہ سے امتحان قراء ت امامِ عاصم کوفیؒ کی تکمیل‘  ادارۂ ادبیات اردو سے اردو عالم‘  علیگڑھ یونیورسٹی سے ادیب کامل‘  عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو میں بی۔اے۔‘  پھر ایم۔ اے۔‘  پھر ایم۔ او۔ ایل۔‘  پھر ایم۔ اے۔ ایل۔‘  پھر فارن لینگویجس سے پی۔ جی۔ ڈی۔ ٹی۔ اے۔ ،  پھر عثمانیہ سے ایم۔ فل۔،  پھر شاستری بھون دہلی سے ایم۔ فل۔،  پھر عثمانیہ سے پی۔ ایچ۔ ڈی۔،  پھر جامعہ نظامیہ سے فاضل میں فراغت،  پھر وہیں سے کامل کی سند کا حصول اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی سے ہندی میں بی۔ اے۔ کی تکمیل حضرت شیخ الحدیثؒ کی ہی سرپرستی میں ہوئی جو آپ کے حسنِ معاملت پر دلالت کرتی ہے۔  حصول تعلیم کے ان کٹھن مراحل کے ساتھ ساتھ فدویہ کے درس وتدریس کا عظیم سلسلہ بھی آپؒ ہی کی تشجیع کا آئینہ دار رہا۔  نتیجہ میں تقریبا پندرہ سال تک دیگر مدارس میں درس و تدریس کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھانے کے بعدتقریبا پندرہ سال تک کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ میں بحیثیت صدر معلمہ خدمت انجام دینے کا شرف حاصل ہوا۔  یہاں سے حسن خدما ت پر سبکدوشی کے بعد المعہد رفیق النساء للبنات ٹولی چوکی کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ المعہد نفیس النساء للبنات کی سرپرستی اور طالبات کے درس و تدریس کا سلسلہ تا حال جاری

و ساری ہے۔  الحمد للہ یہ سب کا سب حضرت شیخ الحدیثؒ کی ترغیب و تشویق کا ہی مرہون منت ہے اور یہی حکم شریعت بھی ہے۔  جیساکہ آپؒخود اپنے مضمون میں رقمطراز ہیںکہ  :

’’ عورت تعلیم و تربیت کی ذمہ داری شادی سے پہلے ماں باپ پراو ر شادی کے بعد شوہر پر عائد ہوتی ہے‘‘۔

حضرت شیخ الحدیث ؒ نے اپنے ایک مضمون  ’’حقوق زو جین‘‘  میں حضرت بد رالدین الحا رو نی ؒ کا  مُرَ تَّب کردہ ’’ شو ہر اور بیوی کیلئے پرو گرام ‘‘ کا ار دو میں تر جمہ پیش کیا ہے ۔  جس میں ’’ تلک عشرۃ کا ملۃ‘‘   کے عنوان سے شو ہر کیلئے دس با تیں بیان کی گئی ہیں  جو درج ذیل ہیں  :

’’(۱)  بیوی کے سا تھ نرم دل اور مہر بان رہو۔  اس کے عیوب کو دوسروں کے سا منے ظا ہر مت کرو۔  اس کو تعلیم دو۔ نماز ‘ رو زہ اور دین کی با تیں بتائو۔  وہ پرہیز گار ہو گی تو تمہا را فا ئدہ ہو گا ۔

(۲)     اس میں کو ئی خرا بی ہو تو حکمت و مو عظت سے اسے دور کر و اور اس کے سا تھ گا لی گلوج مت کرو۔

(۳)    اس کے خیر خواہ رہو۔  اس کے سا تھ حسن سلوک کا معا ملہ کرو۔  اپنی لذت کیلئے اس کو ضررمت پہنچا ؤ۔  اس کو شبہ کے مقامات سے بچا ؤ۔  ور نہ کوئی خرا بی ہو تو تم ذمہ دار رہو گے۔

(۴)    شا دی کے بعد دو نوں رشتوں (ماں باپ اور سسرال) کے درمیان توازن قا ئم رکھو ۔  یہ نہا یت اہم ہے۔ اپنے ماں باپ کے حقوق میں کو تا ہی مت کرو۔  اس کے سا تھ اپنی بیوی کے ما ں باپ کا بھی ایسا ہی احترام کرو جیسا تم اپنے لئے چا ہتے ہو۔

(۵)    شریعت کے خلاف اس کو کوئی حکم مت دو۔

(۶)     اگر بیوی کسی چیز کا مطا لبہ کرے تو اس کو ممکنہ حدتک پورا کرو۔  اگر نہ ہو سکے تو منا سب عذ ر بتا ؤ۔

(۷)    بیوی کے سا تھ غصہ مت کرو ۔  اس کے سا تھ تعصب سے کام مت لو ۔  اس کو مت ڈ راؤ۔  اور گھر سے مت نکالو۔ ور نہ دو نوں کی زندگی بے سکون اور اجیر ن بن جائے گی۔

(۸)    گھر یلو کا موں میں عمو ماً دخل مت دیاکرو۔  سوا ئے کسی اہم کام کے ۔  جس کام کے اسباب فراہم نہ کئے گئے ہوں اس کا بیوی کو حکم مت دو ۔

(۹)     شد ید ضرورت کے بغیر ایک سے زا ئد شا دی مت کرو ۔  اگر ایک سے زا ئد بیو یاں ہوں تو ان پر خرچ کر نے اور شب با شی میں عدل و انصاف سے کام لو۔

(۱۰)    کبھی بھی طلاق مت دو ۔ اصلاح کی حکمت و مصلحت سے پو ری کوشش کرو۔ حدیث شریف میں ہے ’’ تَزَوَّجُوْا وَلَا تُطَلِقُوْا یَھْتَزُّ مِنْہُ الْعَرْش‘‘  شادی کرو اور طلاق مت دو اس سے عرش ہل جا تا ہے۔  اگر تم طلاق پر مجبور ہو جاؤ  تو اس کے کسی بھی حق کو مت رو کو ۔‘‘

حضرت شیخ الحدیث ؒ اپنی حیات میں ان اصو لوں پر قا ئم رہے ۔  ہمیشہ نرم دلی اور محبت کا پیکر رہے۔  او امر و احکام الٰہی اور سنن رسول اکرم ﷺ پر مدا ومت کر تے رہے اور ہمیں بھی با لا لتز ام اس کا حکم دیتے رہے اور عمل کر وا تے رہے ۔  مگر اس کیلئے ہمیشہ حکمت و مو عظت کے پہلو کو اختیار فر ما یا۔ کبھی بھی شد ت اور سختی نہیں کئے۔  ہمیشہ ہما ری خیر خوا ہی آپ کا خا صہ رہی۔  غر ضیکہ آپ مذ کو رہ با لا دس نکا تی پر و گرام کے بڑے حصہ پر بخو بی عمل پیرار ہے ۔

عمدۃ المحد ثین ؒ میرے لئے کبھی بھی اپنے والدین اور محا رم سے ملنے جلنے میں رکاوٹ نہیں بنے۔  اس سلسلہ میں بھی ہمیشہ احکام شریعت آپ کے پیش نظر رہے۔  چنا نچہ آپ خود اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں:

’’بیوی اپنے ما ں با پ سے ہفتہ میں ایک مر تبہ ملنے جا سکتی ہے اور اس کے ما ں باپ ہفتہ میں ایک مر تبہ ملنے آسکتے ہیں۔ اور دوسرے محا رم کے پاس سال میں ایک مر تبہ یا چھہ ماہ میں یا عرف کے مطا بق ملنے جا سکتی ہے ۔ شو ہر کو روکنا نہیں چاہئے ۔  بغیر کسی عذ ر شرعی کے شو ہر اس کو رو کتا ہے  تو یہ  ایک قسم کا ظلم ہے اور قا طعِ رحم کی تعریف میں آئے گا۔‘‘

آپ ؒ حقو ق واجبہ تو ادا کر تے ہی رہے تا ہم حقوق غیر وا جبہ بھی خو شدلی سے پو را کر تے رہے۔  ہمیشہ اہل و عیال کی دلجو ئی اور خا طر خو اہی آپ کا شیوہ رہا۔ فطری تقا ضہ کے سبب جب کبھی ہم آپ ؒ سے نا راض ہو تے یا کبیدہ خا طری کا مظا ہرہ کرتے تو آپ اس وقت بھی حسن سلوک کا دا من تھا مے رہتے۔  چنا نچہ آپ خو د اپنے مضمون میں تحر یر فر ما تے ہیں :

’’امام بخا ری ؒ نے  ’’ اَلْمِدَارَۃُ مَعَ النِّسَائِ ‘‘  کا عنوان قا ئم فر ما یا اور اس کے تحت احا دیث لا ئی ہیں کہ : ازواج مطہرات کبھی حضور سے کئی دن تک بات نہیں کر تی تھیں ‘ لیکن حضور اکرم ﷺ حسن سلوک فر ما تے رہتے تھے۔

احیا ء العلوم میں ہے بیوی کے سا تھ بچوں کی طرح رہو اور قوم میں مرد بن کر رہو۔  اگر وہ اپنے حقوق ما نگنے میں سختی کر تی ہے تو اس کو بر دا شت کر نا چا ہئے ۔ حدیث شریف میں ہے ’’اِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا‘‘  (بخا ری) حق دار کو بو لنے کا حق ہے ۔

بیوی کے کام میں ہا تھ بٹا نا چا ہئے۔ حدیث شریف میں ہے ’’یَکُوْنُ فِیْ مِھْنَۃِ اَھْلِہٖ‘‘(بخا ری) کہ رسول اللہ ﷺ جب گھر میں دا خل ہو تے تو اپنے گھر والوں کے کا مو ں میں ہا تھ بٹا تے ۔ ان کے تطییب نفس یعنی دل کو خوش رکھنے کی کو شش کرے ۔  حضور پاک ﷺ حضرت سید تنا عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کو دیر تک حر بیوں کے جنگی کر تب دکھا ئے ۔  (بخا ری)  دو مر تبہ دوڑ کا مقا بلہ ہوا۔  ایک مرتبہ آپ آگے آئے اور ایک مر تبہ آپ آہستہ ہو گئے وہ آگے بڑھ گئیں ۔(مشکو ۃ شریف)

بیوی کے حسن و جمال میں کوئی امر نا پسند ہو تو اس کو ظا ہر نہ کرے اور دو سری عو رت کے حسن کو اس کے سا منے بیان نہ کرے ۔ اس کی وجہہ سے بیوی کو تکلیف ہو گی۔  اور مرد سے بے اعتما دی پیدا ہو جا تی ہے ۔  اور ایساظا ہر کرے کہ وہ بیوی کو ز یا دہ چا ہتا ہے ۔بیوی کو را ضی اور خوش رکھنے کیلئے کچھ با تیں اگر شو ہر بو لتا ہے تو اس کو شریعت جھوٹ میں شمار نہیں کر تی ۔ کیو نکہ اس سے اصلاح ہو تی ہے ۔(بخا ری )

حسن مصا ہرت  :  مرد کو چا ہئے کہ بیوی کے ماں باپ و غیرہ کے سا تھ حسن سلوک کا رو یہ رکھے ۔  اس سے زو جین کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہیں گے ۔  حدیث شریف میں ہے  ’’ لم یر للمتحا بین مثل النکاح‘‘ زندگی کو خوشگوار بنا نے میں یہ بہت کار آمد ہے ۔ بیوی کو اپنے ماں باپ کی تعریف سن کر خو شی ہو تی ہے ‘‘۔

غر ضیکہ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی از دوا جی زند گی ’’وَعَا شِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ‘‘ ’’وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ‘‘  ’’ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ ‘‘  و غیرہ آیاتِ  قر آنیہ  اور  احا دیث ِ  مبا رکہ  ’’ خیرکم  خیرکم  لا ھلہ واناخیرلاھلی ‘‘  اور  ’’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ ‘‘  وغیرہ کی مکمل آئینہ دار رہی ۔  احکامِ شریعت سے کبھی سرِ مو انحراف نہیں کیا ۔  اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خو شنو دی ہمیشہ پیش نظر رہی ۔  با لآ خر ۶؍ ربیع الثا نی ۱۴۴۰ھ؁ م ۱۴ ؍ ڈسمبر ۲۰۱۸ئ؁ بر و ز جمعہ ہما رے دلوں کا سکون و قرار لٹ گیا۔  ہما رے سروں سے خلوص وو فا کا سا یہ اٹھ گیا۔  وہ اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے ۔  جو ار حمت میں جگہ پا گئے۔  ہمیں یقین ہے کہ نہ صرف وہ جنتی ہیں بلکہ اللہ کے فضل و کرم اور اس کے حبیب ﷺ کے طفیل اپنے اہل و عیال‘  جملہ متعلقین و محبین‘  اور مریدین و متو سلین کو بھی جنت میں لے جا ئیں گے۔

از:ام البیان ڈاکٹر سیدہ نفیس النساء بیگم صاحبہ زوجہ شیخ الحدیثؒ
صدر کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ ۔ پیشکش مولوی محمد طاہر خان صاحب استاذ المعہد