حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ بحیثیتِ مصلحِ قوم

0

جیساکہ آپ سب جانتے ہیںکہ حضرت شیخ الحدیث ؒاپنی حیات میں بھی اہمیت کی حامل اور بعد وصال بھی آپکے کارہائے نمایاں کی وجہ اور بھی اہمیت کے حامل ہیںمیں نے حضرت کو اپنے زمانہ طالب علمی سے دیکھا اور سمجھا ہے آپ اپنے اندر ایک فرد نہیں بلکہ ایک انجمن تھے ابھی میں نے مقالہ نگار حضرات سے سماعت کیا کہ حضرت کی شخصیت کس درجہ اعلی تھی بیک وقت آپ صوفی ،شاعر ، محدث، نثر نگار،ادیب ، مصلح قوم وملت تھے وہیں آپ کے اندر ایک اور عنصر یہ بھی تھا کہ آپ ہمیشہ دوسروں کی خیرخواہی اور بھلائی میں رہتے تھے ، حدیث شریف خیر الناس انفعہم للناسکے مصداق تھے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو، حضرت شیخ الحدیث ؒ میں یہ بات غالب حد تک پائی جاتی تھی ، قوم وملت کی اصلاح انکے لئے علوم وفنون کی راہیں ہموار کرنا مدارس ، معاہد کلیۃ وغیرہ کا قیام بھی اسی سمت کی ایک پیش رفت قدم ہے اصلاح قوم ملت کے  جو تقاضے تھے وہ حضرت میں مکمل پائے جاتے تھے۔ حضرت بانی معہد علیہ الرحمہ کی علمی وادبی احسانات دنیاء علم وادب واہل معرفت کبھی فراموش نہیں کرسکتے کیونکہ آپ نے اپنی ساری زندگی اسکے لئے وقف فرمایااور خدا داد صلاحیتوں اور پوری توانائیوں سے قوم وملت میں دین داری کو روشن کروایا بلکہ اگریوں کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ حضرت ممدوح نے اپنی ساری متاع حیات کا ایک ایک لمحہ اعلاء کلمۃ الحق وسربلندی اسلام اور رضاء خدا و رسول کیلئے وقف فرمایا ، حضرت شیخ الحدیثؒ اپنے تلامذہ کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور انکی علمی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیلئے اپنی معیت خاص میں رکھ کر انکو سنوارا  نکھارا  اور چمکایا، تاکہ وہ انوار الہی کے چراغ بن کر اقطاع عالم میں اپنی تابانیاں پھیلائیں اور الحمدللہ حضرت اپنی اس خدمت میں حد درجہ فائز المرام ہیں اساتذہ وقت کے لئے حضرت کی یہ سعی نمونہ اور اسوہ ہے۔ فرمان الہی ’’واتقو اللہ ‘‘  ’’ویعلمکم اللہ‘‘۔ اللہ سے ڈرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو علم عطا فرمائے گا۔ دل گناہوں سے پاک ہوگا تو علم جو اللہ کا نور ہے اس میں اترے گا ، چنانچہ ملت کی اصلاح کیلئے شہر میں جگہ جگہ ہفتہ واری دروس کا اہتمام فرمائے جہاں سے لوگ کئی دہوں تک مستفید ہوتے رہے۔ المعہد الدینی العربی کا قیام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے تاکہ طلبہ عربی علوم کو اسی زبان یعنی عربی زبان میں پڑھیں اور سیکھیں اور اسکا میڈیم بھی عربی ہی ہو۔

امسیہ شعریہ یعنی عربی زبان میں مشاعرے اور محفل نعت منعقد کرنا ، حضرت قبلہ کی یہ سعی مثال ہے ربیع الاول کے موقع پر ہر سال عربی زبان میں ایک نشست بزبان عربی محفل نعت منعقد کرنا اور یہ ریاست تلنگانہ آندھرا پردیش میں میں سمجھتاہوں کے اس نوعیت کی اور عربی زبان کی پہلی محفل ہے یہ اور بات ہے کہ حضرت کے بعد دوسروں نے بھی اسی طرز پر محافل منعقد کئے لیکن الفضل للمتقدم کے تحت عربی زبان کی یہ خدمت بھی لائق صد تحسین ہے قوم وملت کی فلاح وبہبود میں حضرت قبلہ بانیٔ جامعہ نظامیہ ؒ کے قدم بہ قدم نظر آتے ہیں جسطرح حضرت بانیٔ جامعہ نظامیہ نے سجاد گان کی تعلیم وتربیت کا انتظام فرماتے تھے حضرت شیخ الحدیث ؒ نے بھی اس خدمت کو انجام دہی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے معہد ہی میں مخصوص مراعات کے ساتھ علیحدہ استاذ کی نگرانی میں اس کا انتظام فرماتے رہے اسی طرح تاجر حضرات کی تعلیم وتربیت کی جانب بھی آپکے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

اسی طرح خواتین کی تعلیم کیو نکہ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم کہلاتی ہے اور ایک عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہوتی ہے ان کی تعلیم کیلئے بھی حضرت شیخ الحدیث ؒ کے خدمات گرانقدر ہیں، اس وقت معہد کے زیر اہتمام دو مقامات (۱) معہد البنات نفیس النساء خلوت بہ وقت صبح ۹ بجے تا ۱بجے دن، مولوی‘ اعدادیہ‘ حفظ قرآن کریم‘ ناظرہ وغیرہ ۔ اور (۲) معہد البنات رفیق النساء ٹولی چوکی جہاں پر مولوی تک کی تعلیم کا حسن انتظام ہے قائم فرمایا اور خواتین مکمل وقت نہیں دے سکتی انکے لئے جز وقتی تعلیم بنام مختصر مدتی تعلیمی کورس وغیرہ کا قیام، اسی طرح اور بھی خدمات ہیں۔ حضرت شیخ الحدیثؒ کی حیات اس حدیث شریف کی تفسیر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی انتقال کرجاتا ہے تو اس کا عمل رک جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے ’’اذامات ابن اٰدم انقطع عملہ الامن ثلاث صدقہ جاریۃ أو علم ینتفع بہ او  ولد صالح یدعو لہ‘‘۔ (مسلم )

حضرت شیخ الحدیث ؒ کی حیات میں یہ تینوں چیزیں وجود پائیں صدقات جاریہ بھی‘ علم نافع بھی اور ولدصالح بھی۔ دعاء ہے کہ حضرت بانی ٔمعہدؒ کی قومی وملی علمی وادبی خدمات کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔  آمین

 

مولاناحافظ و قاری محمد جواد صدیقی صاحب حفظہ اللہ
ناظم المعہد الدینی العربی