حضرت شیخ الحدیث بحیثیت ناظم

0

پتہ نہیں یہ فقرہ کس نے کہا تھا اور نہ جانے کن لوگوں کے لئے کہا تھا کہ ’’مرشداڑتا نہیں مرید اڑاتے ہیں ‘‘ اگر ہم اس فقرہ کو درست مانے تو کوئی اہل فن منظرعام پر آہی نہیں سکتا ،کیونکہ فن کارکوفن کار اسکے چاہنے والے ہی تو بناتے ہیں کسی فنکار کی تخلیق کو اسکے چاہنے والے اسکی اچھا ئیاں ،خوبیاں ، اپنے دوست و احباب ، رشتہ دار، طلبہ مریدین ، معتقدین سے بیان کرنا بند کردیں تو آنے والے دنوں میں نہ کوئی شاعر ، نہ ادیب ، نہ مفسر، نہ محدث ،نہ خطیب ، نہ واعظ، نہ استاد ، اورنہ ہی مرشد کوئی نہیں ہوگا .رہنگے کون ؟ بس یہ فقرہ کس نے والے بیمار ذہن لوگ .جب بیمار ذہن رہینگے ہر طرف بیماری ہی بیماری نظر آئے گی حاصل یہ ہو ا کہ ایک صحت مند تندرست معاشرہ کے لئے فن کارکا ہونا ضروری ہے جب فن کار ہونگے تو ہر طرف ان کے چاہنے والے بھی ہونگے .جب ان کے چھاہنے والے ہونگے توتبھی معاشرہ کو امام بخاری ، امام مسلم ،اقبال ،غالب ،بانی جامعہ ،ڈاکٹر حمید اللہ ،اور خواجہ شریف وغیرہ ملینگے.
آخرانہ کر شخصیت محمد خواجہ شریف مشرقی تعلیم و تعلم کا منفرد ادارہ جامعہ نظامیہ کے شیخ الحدیث کے درجہ پر فائز تھے .اللہ نے انھیں بے شمارکمالات سے سرفراز کیاتھا .ایسے بہت ہی کم لوگ پیدا ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالی اتنی ساری خوبیاں ایک ساتھ رکھ دیتا ہے .شیخ الحدیث کی مثال ایک شمع کی مانند ہے .جو خود جل کر اوروں کو روشن کرتی ہیں .اورہر دیکھنے والے کو اس کا رخ ادھر ہی نظر آتا ہے جدھرسے و ہ شمع کو دیکھتا ہے شیخ الحدیث نے خود جل کر معاشرہ کی ترقی اورطلبہ کی بہبود کیلئے تعلیم کا اہتمام کیا اور علم دین کی خدمت کی شیخ الحدیث کو دیکھنے والوں میں مختلف نظریات کے ہیں .انہیں بعض چاہنے والے عمدۃالمحدثین دیکھتے ہیں تو بعض مفسر،بعض شارح حدیث ،تو بعض مترجم ،تو بعض عربی ادیب،تو بعض عربی شاعر،تو بعض واعظ ،تو بعض خادم اردو ،تو بعض علم دین کا خادم ،تو بعض مصنف،تو بعض مؤلف ، تو بعض مرشد ، تو بعض فقیہ ،تو بعض دانشور،تو بعض مہربان والد، تو بعض بادب فرزند ،توبعض دوست صادق ،تو بعض ناظم اموروغیرہ وغیرہ نظریات سے دیکھتے ہیں.
المختصر فہرست بڑی طویل ہے جس نے بھی شیخ الحدیث کو جس نظریہ سے دیکھا اس نے ویسا پایا میری اس تحریر کو بے دلیل مان کر زبان و قلم
کو مصروف عمل نہ کریں۔میری اس تحریر کا ثبوت شیخ الحدیث کے نماز جنازہ کا وہ منظر ہے جس کو حیدرآباد کی تاریخ میں یاد رکھا جائیگا.سخت سردی کے باوجود ہزاروں لوگوں کی بھیڑ اس تحریر کا ثبوت ہے ۔
حضرت شیخ الحدیث میں اللہ نے یہ خاصیت بھی رکھی تھی کہ ان کانظم و نسق بڑا عمدہ اورزبردست ہوتا تھا.راقم الحروف نے ان کے تعزیتی جلسے اورمعتبر شیوخ اور اساتذہ کرام سے بھی سناہے کہ وہ دوران طالب علمی ہی سے منفرد حیثیت کے مالک تھے .طلبہ میں بڑے قد کے طالب علم مانے جاتے تھے جس کو آج کل ہم مانیٹر یعنی جماعت کا ہو نہار طالب علم کہتے ہیں.اس کے علاوہ جامعہ نظامیہ کے ریسرچ سنٹر ’’مرکز تحقیقات اسلامیہ‘‘کے ناظم یعنی ڈائرکٹر اور المعھد الدینی العربی کے ناظم اور بانی،مجلس فراہمی سرمایہ جامعہ نظامیہ کے رکن معزز ،اورمجلس اشاعت العلوم کے معتمد ،اوردارالعلوم اننت پور اور اللجنۃالعلمیۃ وغیرہ کے بانی رہے ہیں۔
مرکز تحقیقات اسلامیہ :
مرکز تحقیقات اسلامیہ جامعہ نظامیہ کا ایک شعبہ ہے اس کا آغاز جامعہ نظامیہ کے ۱۲۵سالہ جشن کے موقع پر آغاز کئے گئے دس نکاتی پروگرام میں سے ایک ہے .اس مرکز کے آغاز کے ساتھ ہی جامعہ نظامیہ کے انتظامیہ نے حضرت خواجہ شریف صاحب کو مرکز تحقیقات اسلامیہ کا ناظم بنادیاگیا .اس شعبہ کا باضابطہ آغاز ۱۹۹۷ ء کو عمل میں لایاگیا ۔انھوں نے اپنے زیر نگرانی اس شعبہ سے ایسے گراں قدر کام انجام دئیے کہ جس سے نہ صرف اس کام کا خوب سراہا گیا بلکہ اس شعبہ کا اصل مقصد عیاں ہوگیا۔
اسی مرکز سے ایسے بے شما ر اہم تصانیف منظر عام پرآئی جن میں حضرت عبداللہ شاہ صاحب ؒ کی ما یہ ناز تصنیف زجاجۃالمصابیح کا ترجمہ، الکلام المرفوع کاعربی میں ترجمہ اورثروۃ القاری وغیرہ اہم تصانیف اسی مرکز کی مرحون منت ہے حضرت شیخ الحدیث کی نگرانی میں زجاجۃ المصابیح کاماباقی اردو ترجمہ کیاگیا۔
اس مرکز میں جامعہ نظامیہ سے فارغ طلبہ و اساتذ ہ جو عربی زبان و ادب پر مہارت رکھتے تھے حضرت شیخ الحدیث کی نگرانی میں بحسن و خوبی پائے تکمیل کو پہنچایا۔
شیخ الحدیث کے یوں توہزاروں کام ایسے ہیں جن کی تعریف علماء،طلبہ اور عوام ایک زبان ہوکرکرتے ہیں لیکن نو رالمصابیح شیخ الحدیث کا کارنامہ حیات ہے .انشاء اللہ ہمیشہ یاد رکھاجائیگا .زجاجۃالمصابیح کی اہمیت و افادیت سے واقف اہل علم اس ترجمہ کی ضرورت اور تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔
حضرت عبداللہ شاہ صاحب ؒ نے جس طرح زجاجۃالمصابیح لکھ کر احناف پرجوصدیوں سے قرض تھا اس کو ادا کیا اس میں کوئی دو رائے
نہیں لیکن اس بیش بہا قیمتی سرمایہ کو عربی زبان سے اردو زبان میں منتقل کرکے ان مترجمین نے اس کی مقبولیت میں چار چاند لگادئیے۔حضرت شیخ الحدیث اوران کی ٹیم نے اہل علم کی ہاتوں سے نکال کر عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پوراکیا ،کم علم ،چھوٹی چھوٹی کتابوں کے ترجمے پڑھکراحناف پرانگلی اٹھانے والوں کا داندان شکن جواب دیا۔
اسی مرکز سے حضرت شیخ الحدیث نے بانی جامعہ نظامیہ کی تصنیف الکلام المرفوع کا عربی میں ترجمہ کرکے اہل عرب کو ایک قیمتی تحفہ دیا۔ اصول حدیث پربہت بڑی بڑی کتابیں لکھیں اور خوب لکھے ۔لیکن ثروۃ القاری اپنی مثال آپ ہے یہ کتاب نہیں بلکہ شیخ الحدیث کی پوری زندگی کا حدیث اور اصول حدیث پر مطالعہ کا عرق ہے .حضرت شیخ الحدیث بحیثیت ناظم مرکز تحقیقات اسلامیہ کی ہر چھوٹی بڑی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس کو ترقی دی۔
المعھد الدینی العربی :
شیخ الحدیث نے علم دین کی اشاعت اور ضرورت کی خاطر المعھد الدینی العربی کی بنیاد ۱۹۸۴ء میں رکھی ایسانہیں کہ اس وقت علم دین کی ضرورتوں کو پوراکرنے کیلئے کوئی ادارہ نہیں تھا.۱۴۷سال سے جامعہ نظامیہ پوری قوت اور یکجہتی سے علم دین کی اشاعت میں مصروف ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ رہے گا ۔اور اس مدرسہ کو شیخ الحدیث کس حسن انتظام کے ساتھ قائم کیا ہے لائق تحسین اور قابل تقلید عمل ہے . انتظامی امور میں علم پر مہارت ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ وقت اورضرورتوں کو پہچان کرضرورت دستک دینے سے قبل اسکا انتظام کرنایہ ناظم کی مہارت کو بتاتاہے اور یہ خصوصیت حضرت شیخ الحدیث میں نظر آتی ہے انھوں نے ضرورت آنے سے قبل وقت اور حالات کے مد نظرایسا انتظام کر رکھاتھا کہ ضرورت پڑھنے پر کمی کی شکایت نہیں ہوتی بلکہ انھوں نے اپنے حسن انتظام سے ہردن ترقی دی ان کے زیر انتظام معھدکا ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہوتی تھی۔
حضرت شیخ الحدیث کی انتظامی مہارت بتانے کیلئے ان کے چیدہ چیدہ کام گنواتے رہو ں تو قارئین کو تکلف میں ڈالنے کے مصداق ہو گا اسی لئے اتنابتاتا چلوں کہ انھوں نے اپنے حسن انتظام سے معھد کو مسجد چمکورہ سے ترقی دیکر ایک بڑی اور خو بصورت ہمہ منزلہ عمارت جس میں طلبہ کی ہر ضرورتوں کا پورا پورالحاظ رکھاگیاہے کیا.اوراسکے علاوہ انھوں نے اپنے حسن انتظام سے شہر اور بیرون شہر اسکی شاخیں بھی قائم کی اوراس مدرسہ کا مالیہ کے استحکام کیلئے کمر شیل کامپلکس قائم کئے تاکہ مدرسہ اپنی علمی ترقی کا سفر جاری رکھ سکے۔
حضرت شیخ الحدیث بڑے نباز اوردوراندیش تھے جن کے مشورے بڑے حد تک کا رگرثابت ہو تے،ان کی اسی خصوصیت کو حضرت مفتی
خلیل احمد صاحب شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے ان کے تعزیتی جلسے منعقدہ جامعہ نظامیہ میں کہا کہ’’ان کے انتقال حسرت آیات سے ان کے اہل خاندان کو تو شدید رنج و غم ہوا لیکن ان سے بھی زیادہ مجھے تکلیف اوررنج وغم ہواکہ انتظامی اموراورتعلیمی امورپرجب کبھی میں پریشان ہوتا تھا تو حضرت شیخ الحدیث سے مشورہ کرلیتا ان کے مشورے سے بڑی مدد ملتی اب میں ایسا دور اندیش مدبر اور انتظامی امورپرماہرت رکھنے والادوست کہاں سے لاؤں بڑی تکلیف ہورہی ہے حضرت شیخ الحدیث بڑے قد کے مدبر تھے‘‘جیسے خوبصورت الفاظ سے مفتی خلیل احمدصاحب نے یاد کیا۔
حضرت شیخ الحدیث کے حسن انتظام کی ایک اچھی مثال دارالعلوم اننت پور بھی ہے دارالعلوم اننت پورانہی کا قائم کیاہوا ہے جس کے بارے میں شاہ فصیح الدین نظامی محدث ملت خطاب میں کچھ اس طرح رقمطرازہیں کہ
’’دارالعلوم اننت پور کے بانی بھی آپ ہی ہیں جو آج ایک ایکڑ اراضی پر کام کررہاہے آپ نے ۱۹۶۱ء میں تین بچوں کے ذریعہ ایک درخت کے نیچے اس مدرسہ کو قائم کیا تھا حضرت مولانا حسین صاحب اس کے صدر تھے حضرت شیخ الحدیث نے اخراجات مدرسہ کی پابجائی کیلئے ایک اسکیم بنائی تھی کہ اننت پور میں ہردوکان سے روزانہ دس پیسے لئے جائیں‘‘
(محدث ملت خطاب مرتب شاہ محمد فصیح الدین نظامی ص۱۰)
اس اقتباس کے یہ الفاظ بڑے معنی خیز اور حضرت شیخ الحدیث کی اندیشی اور حسن انتظام کی عکاسی ہیں ’اننت پور میں ہردکان سے روزانہ صرف دس پیسے لئے جائیں ‘دس پیسے کا وزن بہت کم ہوتا ہے کسی شخص پر بھی توجھ نہیں بنتا جبکہ بہت سارے دکانوں کے دس دس پیسے ایک جمع ہو جاتے ہیں تو وہ روپیوں اور سوؤں میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس سے مدرسہ کے اخرجات بڑی آسانی سے پورے کئے جاسکتے ہیں۔
بیک وقت پڑھنا پڑھانا،لکھنا لکھانا،کسی اداروں کا انتظام سنبھالناعلم و ادب کے مختلف شعبہ جات میں نئی راہیں نکالنا رسائل جرائد اور مجلات جاری کرنا المعھد الدینی العربی بنانا ،مرکز تحقیقات اسلامیہ کے فرائض انجام دینا،تصنیف وتالیف،ترجمہ نگاری میں لگے رہنا اورلگائے رکھناشب و روز کام کرنا مخالفین کو دوست بنانااور ان سے کام لینا اور چھوٹوں کا حوصلہ بڑھانا اور ساری مصروفیات کے علاوہ شعروشاعری کرکے اپنے ذوق کی تسکین کرلینا کیا یہ تمام حقیقتیں شیخ الحدیث کی عظمت کا ثبوت نہیں مجھ جیسے کم سواد اور بے بضاعت کا مضمون چھوٹا منھ بڑی بات کے مصداق ہوگا۔
آخیر میں اپنی بات اس شعرپرختم کرتاہوں کہ:
شہید جنت ارضی تری تربت پہ رحمت ہو
تجھے روئیگا صدیوں حیدرآباددکن ساقی

از : حضرت مولانا سید محبوب قادری حفظہ اللہ معلم اردو جامعہ نظامیہ