شیخ الحدیث مولانا خواجہ شریف صاحب ؒایک علمی اور ہمہ گیر شخصیت

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔
اما بعد :

بزرگانِ ملت برادران عزیز !

ابھی متعدد مختلف علماء کرام سے مقالہ آپ نے سماعت فرمائے حضرت خسرو حسینی صاحب مدظلہ العالی سے بھی آپ نے اختصار اور جامعیت کے ساتھ اپنے تاثرات آپ نے جو بیان فرمائیے اس کو سماعت کئے۔ مولانامحمد خواجہ شریف صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت علمیت اور آپ کے خدمات ان کا احاطہ کرنا اب اس وقت کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہیں لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت جتنے بھی علماء ہیں شاید ہی کسی کو اتنی طویل مدت تک تدریس خدمات انجام دینے کا موقع ملا ہے کیونکہ آپ جامعہ سے 1960 ء میں جب نکلے تو اس کے بعد سے جو سمجھے کہ 1960 ء سے آپ کے تدریسی خدمات کا آغاز ہوا اس طرح سے دیکھا جائے تو کم سے کم 58 سال آپ تدریسی خدمات انجام دیئے۔

خود جامعہ نظامیہ میں آپکے خدمات کا جو وقت ہے وہ ہے 1966ء میں آپ کا تقرر ہوا  اور 2018ء تک آپ کے خدمات جاری رہے تو53 سال اپنے مسلسل جامعہ میں خدمات انجام دیں، یہ بات میں اس سے پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ مولانا محمد خواجہ شریف صاحب کا جس وقت تقرر ہوا آپ کی سند کی بنا پر نہیں ہوا اس وقت آپ کے پاس فاضل کی بھی سند نہیں تھی جب فاضل ہی نہ ہو تو کامل کا کیا سوال لیکن آپ کی لیاقت اور آپ کی صلاحیت کی بنیاد پر اس وقت کے شیخ الجامعہ ہمارے استاذ حضرت مولانا مفتی عبد الحمید صاحب نے آپ کے بلا طلب اپنے قلم سے تجویز فرمایا کہ یہ لڑکا قابل ہے اس کا تقرر کیا جائے حالانکہ اس  وقت کوئی  کاملین تھے کئی فاضلین تھے اور بہت سارے لوگ تھے لیکن ان تمام میں نگاہ انتخاب پڑی تو آپ پر، پھر اسی طرح میرے بزرگو اور دوستو! بہت سارے لوگ ہیں کہ جن کے شاگرد اپنے علاقے میں کچھ اور علاقوں میں ہوتے ہیں بہت سے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے طلباء آکر پڑھتے ہیں لیکن میں یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ مولاناخواجہ شریف صاحب سے استفادہ کرنے والے طلباء اور علماء میں عرب کے لوگ بھی ہیں اور عجم کے لوگ بھی ہیں آپ کا حلقہ  درس صرف عجم تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ کا فیضان صرف براعظم ایشیا تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ براعظم یورپ تک بھی پہنچا، چنانچہ شام کے ایک عالم حضرت حسن ھیتو صاحب حیدرآباد تشریف لائے انہوں نے دنیا کے مختلف اداروں کا دورہ کیا مختلف جامعات کا دورہ کیا وہاں کے علماء سے ملاقاتیں کیں لیکن ان تمام علماء میں ان تمام ادارہ جات کے محدثین میں شیخ الحدیث پر جب آپ کی نگاہ انتخاب جو پڑی جرمن میں تعلیم دینے کے لئے تو مولانا محمد خواجہ شریف صاحب پر پڑی حالانکہ وہ انڈونیشا بھی گئے وہ خود عرب ہیں، جامعہ ازہر کے فارغ ہیں، ہندوستان کے مختلف مدارس کا  انہوں نے دورہ کیا لیکن  کسی کا انتخاب نہیں کیا انتخاب کیا بخاری پڑھانے کے لئے جرمن میں تو مولانا خواجہ شریف صاحب کا انتخاب کیا کن طلبہ کو پڑھانا جو عرب ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے اور جو علوم عربیہ سے بھی واقف ہیں ان کو بخاری پڑھانے کے لئے آپ کا انتخاب کیا، اسی طرح ابھی ابھی آپ نے بہت سارے بہت سارے مقالہ نگار حضرات سے سماعت فرمایا کہ آپ نے یہ خدمت انجام دیں۔ یہ تو اپنی جگہ ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن میں جب شیخ الجامعہ بنا تو اس وقت میں نے ایک تجویز رکھی حضرت شیخ الحدیث کے سامنے کہ عام طور پر دینی مدارس میں ختم بخاری کا اہتمام ہوتا ہے، تو کیوں نہ ہم اپنے جامعہ میں بھی اس طرح کا اہتمام کریں اگر آپ اس کے لیے تیار ہیں تو انتظامات ہم کرتے ہیں، تو مولانا خواجہ شریف صاحب علیہ الرحمہ نے بڑی ہی خندہ پیشانی سے اس کو قبول کیا اور کہا کہ اس کے لئے میں تیار ہوں اور پوری پوری جو بھی اس کے لئے محنت اور کوشش ہو سکتی ہے میں کروں گا تو انیس سو بیانوے سے لے کر 2017ء تک مسلسل آپ نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس ایک بڑے حلقے اور ایک بڑے جلسہ کی شکل میں آپ نے دیا اور اس دوران جب کبھی اس آخری حدیث کے رموز، اس کے فوائد، اس کے نکات بیان کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ سابق میں جو بیان کیا تھا شاید رہ گئے تھے  پھر ایک نئی چیز بیان کرتے، ایک نئے کیفیت بیان ہورہی، ایک نیا نکتہ بیان ہورہا، ایک ہی حدیث کے بارے میں انھوں نے اتنے سال مسلسل یہ سمجھیں کہ25یا 26 سال  ایک ہی حدیث کو بیان کرنا، اس کے نکات کو بیان کرنا، اور ہر وقت کچھ نئی ندرت پیدا کرنا، یہ بہت مشکل کام ہے لیکن مولانا نے اپنے پورے علمیت کا اور اپنے تمام خدمات کا اثر ظاہر فرمایا اور بتلایا کہ دیکھو حدیث شریف کے اندر اتنے علوم پوشیدہ ہیں اور حدیث پڑھانے کے لئے کن علوم کی ضرورت ہے اور میں یہ بات چونکہ مولانا سے ہمارا تعلق بچپن سے بھی رہا، جوانی میں بھی رہا، بڑھاپے میں رہا، تینوں زمانے میں ہم ساتھ رہے اگرچہ کہ وہ ہم سے سینئر ہیں لیکن ایک زمانہ آیا کہ وہ ہمارے ساتھ رہے کیونکہ درمیان میں ترک تعلیم کیا، پھر ایک زمانہ آیا کہ وہ ہمارے سے پیچھے ہوئے، کیونکہ پھر انہوں نے وقفہ لیا لیکن ان تینوں زمانہ میں میرا جو تاثر رہا کہ کسی بھی وقت ہم ان سے آگے نہیں بڑھ سکے وہ ہم سے جب آگے تھے تو بھی آگے تھے جب وہ برابر ہوئے تو بھی آگے تھے، جب پیچھے ہوئے تو بھی آگے تھے۔ یہ آپ کی علمیت کا معاملہ تھا، اور اس سے پہلے میں جیسا کہ عرض کیا کہ زمانہ طالب علمی میں آپ اپنی جماعت میں سب سے کم عمر طالب علم تھے اور جسمانی اعتبار سے بھی نحیف و کمزور تھے لیکن کبھی بھی کسی بھی طالب علم کو آپ سے بڑھنے کا کیا برابر ہونے کا بھی موقع نہیں ملا۔ یہ تاریخ کے حقائق تھے اور میں اس کی گواہی دے سکتا ہوں۔ تو میرے بزرگو اور دوستو! شیخ الحدیث کی شخصیت ایک ہمہ گیر شخصیت تھی، علم والی شخصیت تھی، اور خوبی یہ تھی کہ آپ کے علم اور عمل میں فرق نہیںتھا ،جو علم تھا وہ عمل تھا اور جو عمل تھا وہ علم تھا اسی وجہ سے آپ کی زندگی کامیاب رہی اور جنازہ جو اس قدر کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے اس میں نماز ادا کئے وہ گواہی دیا کہ آپ کیا تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کے قبر کو انوار سے بھر دے، اور آپ کے فیضان کو جاری و ساری رکھے۔ و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ و نور عرشہ و علی اٰلہ الطیبین و أصحابہ الأکرمین أجمعین

مفکر اسلام زین الفقہاء مولانا مفتی خلیل احمد صاحب قبلہ حفظہ اللہ تعالیٰ
شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ