حضرت شیخ الحدیث جماعت سوم سے عمدۃ المحدثین تک

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔
اما بعد :

حضرت مولانا خواجہ شریف شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھی ،میں سوچ رہا ہوں کہ ان زندگی کے کس پہلو پر روشنی ڈالوں وہ ایک عالم شریعت ،پیر طریقت ،ماہر استاد ،باادب طالب علم ،شاعر ،بہترین نثر نگار ،ادیب ،مدبر ،ماہر تعلیمات اور محدث تھے۔
حضرت مولانا خواجہ شریف شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کے جماعت سوم میں داخلہ لیا۔اس وقت وہ جسمانی طور پر کمزور ،دبلے ،کم عمر طالب علم تھے ۔لیکن بڑے ذہین،محنتی ،اور بااخلاق تھے ۔
ان کامیرا تعلق بہت پرانا ہے ہم بچپن ،جوانی او رپیر ی ہر دور میں ایک ساتھ رہے پہلے پہل وہ میرے سینئر تھے پھر کسی وجہ سے تعلیم کے تسلسل کو رکادیا پھر میرے ہم جماعت ہوئے یہاں پر بھی کچھ پریشانیوں کی وجہ سے عارضی طور پر تعلیم ترک کردی پھر میرے جونیئر بنے ہر مشکل وپریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تعلیم ترک کرنے کی کبھی نہیں سونچی ان مشکلات کے باوجود وہ برابر تعلیم سے جڑے رہے ۔کتاب کو اپنا رفیق بنائے رکھے ،جس کی بناء کو ئی بھی طالب علم کسی بھی زمانے میں ان سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔ان کی اولیت سینئر تھے تب بھی تھی ہم جماعت تھے تب بھی تھی او رجونئیر بنے تب بھی ان کی اولیت میں کسی بھی طرح کا کوئی فرق نہ آیا ۔
وہ بلند ہمت او راولوالعزم میں اپنی مثال آپ تھے ۔یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مولانا کا جامعہ نظامیہ میں بحیثیت استاد تقرر قابل غور بات ہے ۔ابھی وہ جامعہ نظامیہ سے مولوی فاضل کا امتحان بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے کہ حضرت مولانا مفتی عبد الحمید صاحبؒ شیخ الجامعہ نے ان کو بلا فاضل کے اپنے قلم سے تحریر لکھی کہ یہ لڑکاقابل ہے ۔جبکہ اس وقت بہت سارے فاضلین او رکاملین تھے اسکے باوجود حضرت شیخ الجامعہ نے خواجہ شریف کوکتب خانہ کیلئے انتخاب کیا۔
وہ اخلاص وللہیت کے پیکرومردم شناس او ران کی نظر مستقبل پررہتی تھی کہ کو ن کس کام کیلئے موزو ں ہوگا۔پہلے وہ استاذ بنے ان کی تدریسی صلاحیتوں او رمطالعہ کی وسعت کے پیش نظر نائب شیخ الحدیث بنے او ر اسکے بعد شیخ الأدب بنے پھر شیخ الحدیث کے عہدۂ جلیلہ پرفائز کیا گیااور آخری سانس تک اس عہدہ کے شایان شان کام کرتے رہے ،حضرت مولانا نے جامعہ نظامیہ میں زائد از پچاس سال تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔یہ ان کیلئے او رہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔
وہ بڑے متحرک وفعا ل شخصیت تھے درس وتدریس کے میدان میں ایک ماہر استاد ،تصنیف وتالیف میں ایک ماہر قلمکار ،شاعر ادیب اور ناظم ہروہ کام بڑی عمدگی اور نفاست سے مکمل کیا ۔وہ بڑے مخلص ا و رمنکسرا لمزا ج واقع ہوئے تھے ان کی یہ خوبیاں جامعہ نظامیہ کے مالیہ کے استحکام کی مہم چرم ہائے قربانی میں کھل کر سامنے آتی ہے ، ایک ماہر علم وفن ہزاروں شاگردان باکمال کے استاد ا و رمعاشرہ میں ایک بلند مرتبہ قابل قدرپروقار شخصیت کو بالائے طاق رکھ کر جامعہ نظامیہ کی خدمت کرتے او راپنے شاگردوں کو بھی ایسی انکساری وسادگی کی تعلیم دیتے رہتے ۔
1992ء میں میں نے حضرت شیخ الحدیث سے اس بارے میں کہاکہ دیگر دینی مدارس وجامعات میں ختم بخاری کااہتمام کیا جاتا ہے ، میری خواہش بھی ہے کہ اس کااہتمام ہمارے جامعہ نظامیہ میں بھی ہو تو بہتر ہوگا۔حضرت شیخ الحدیث نے بڑے مسرت وخندہ پیشانی سے اس مشورے کو سراہا بلکہ یہ ذمہ داری بھی لے لی کہ وہ ختم بخاری کا در س دینگے ۔اس طرح جامعہ نظامیہ میں ختم بخاری شریف کا سلسلہ چلا آرہا ہے ۔
جیسا کہ مذکو ر ہو ا کہ حضرت شیخ الحدیث کے شاگردی کا دائرہ بڑا وسیع ہے ،اتنا وسیع کہ دکن ،ہندوستان کے علاوہ عرب ممالک میں موجود شاگردوں نے ان کی حدیث فہمی او رحدیث دانی کی تعریف کی تو وہاں کے مقامی علماء حدیث سنے کی خواہش کی تو ان سبہوں نے ملکر حضرت شیخ الحدیث کو ہفتہ عشرہ کیلئے اپنا مہمان بنایا اور بہترین انتظامات کئے اس علمی سفر کے دوران حضرت شیخ الحدیث نے بخاری شریف کا درس بڑے ہی عمدہ طریقہ سے دیا تھا ۔اس محفل میں عرب علماء، دانشور،اور phdاسکالرس بھی شامل تھے ۔جب انہوں نے شیخ الحدیث سے حدیث شریف کی تشریح سنی تو کہنے لگے ہم نے یہ باتیں کسی کتا ب میں آج تک نہیں پڑھی ہیں اور یہ قیمتی معلوماتی درس تھا ۔ ،حضرت شیخ الحدیث ان اہل عرب کے سامنے صرف ادبی نکات ہی نہیں بتائے بلکہ مسلک اہل سنت والجماعت کے عقائد کی روشنی میں درس ہواکرتا تھا
ایسا صرف ایک آدھ مرتبہ نہیں ہوا جب ان کی حدیث فہمی او رحدیث دانی کے جو ہر پروفیسر حسن ہیتو الجیلانی جو کہ خو د ایک ماہر علم وادب اور جامعہ ازہر کے فارغ انہوں نے درس حدیث سنا تو جرمنی میں درس بخاری کیلئے حضرت خواجہ شریف صاحب کا انتخاب کیا ۔
حسن ہیتو الجیلانی ہندوستان وبیرون ہند کے دینی جامعات او رعصری جامعات کا خوب دورا کیا تھا انہیں کھرے او رکھوٹے میں فرق معلوم تھا اسی لئے انہوں نے جرمنی میں درس حدیث کیلئے حضرت کا انتخاب کیا ،حضرت شیخ الحدیث کیلئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی وہ درس حدیث کے لئے سعودی عرب او رمختلف عرب ممالک میں جاکر درس حدیث دیتے تھے ۔
فن حدیث او رفن ترجمہ کے علاوہ وہ بڑے مدبر دو ر اندیش تھے ان کی ذات سے ہر کسی کو فائدہ ہو ،ان کے انتقال حسرت آیات سے ان کے اہل خاندان کو تو شدید رنج وغم ہو ا لیکن ان سے بھی زیادہ مجھے تکلیف او ررنج وغم ہوا کہ انتظامی امو ر او رتعلیمی امور پر جب کبھی پریشان ہوتا تو حضرت شیخ الحدیث سے مشورہ کرلیتا ان کے مشورے سے بڑی مدد ملتی اب ایسا دو ر اندیش مدبر او رانتظامی امور پر مہارت رکھنے والا دوست کہا ں سے لاؤں بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔
آخیر میں اللہ سے دعا گوہوں کہ مرحوم کے حسنا ت قبول فرما کر اپنے فضل عظیم سے جنت میں داخل فرمائیں ۔آمین

مفکر اسلام زین الفقہاء مفتی خلیل احمد صاحب قبلہ مدظلہ العالی
شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ ،رکن معزز آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ