حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کا پیغام طلبائے علوم اسلامی کے نام

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔
اما بعد :

کار ساز ما بہء فکر کار ماست ٭فکر مادر کار ما آزار ماست

راہ دار  ما بہ فکر راہ ماست ٭فکر ما در راہ ما آزار ماست

خالق کا جلوہ مخلوق میں،صانع  کا رنگ مصنوعات میں، اور مؤسس کا عکس مؤسسہ میں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جامعہ نظامیہ کے اکابر شیوخ میں حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی قدس سرہ العزیز بانی جامعہ نظامیہ کے جلوے نظر آتے ہیں،چونکہ حضرت شیخ الاسلام  شریعت و طریقت کے عظیم پیشوا، علوم ظاہری اور باطنی کے درئہ نایاب،علوم رسالت اور اخلاق نبوت کے حامل گزرے ہیں ،بنا بریں جامعہ نظامیہ کے اکابر شیوخ علوم عقلیہ و نقلیہ میں کمال  ودسترس رکھنے کے علاوہ تصوف اور طریقت میں بلند مقام رکھتے ہیں، ہمارے طالب علمی کا دور ایک سنہرا دور تھا،جامعہ نظامیہ کی نورانی فضاء پیارومحبت اور باہمی احترام سے معطر تھی، حضرت علامہ سید شاہ طاہر رضوی القادری رحمۃ اللہ علیہ سابقہ شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ واقعی صدر الشیوخ تھے، بالخصوص فن تفسیر، ادب اور علم العروض (فن شعر و شاعری) میں مرجع کا درجہ رکھتے تھے،جب کوئی علمی محفل جامعہ نظامیہ میں سجتی  اور شیوخ جامعہ نظامیہ اپنے علمی رعب و جلال کے ساتھ رونق بزم ہوتے تو ان نور انی شکلوں کے دیدار سے چشم بصیرت میں ایک نور پیدا ہوتا اور قلب مضطرب میں سرور و انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی،یہی پاکیزہ مناظر ہماری زندگی کے سب سے بہترین لمحات تھے،نیز ’المنتدی‘ کی ہفتہ وار مجلس میں  نشیدپڑھنے والا

صدر الشیوخ والشیوح حولہ٭کالنجم حول البدر لاحٰ قائدا کی تکرار کرتا تو ایک وجد کی کیفیت طاری ہوتی،ان کے بارعب چہرے، شملہ کی خاص ھیئت،باوقارنشست، ادب و جلال سے پرنور نگاہیں، ایک دوسرے کا باہمی احترام، محفل پر چھائی ہوئی عام خاموشی، خطاب کے دوران ان کی زبان فیض ترجمان سے جاری ہونے والے کلمات،قلب و دماغ پر حیرت انگیز نقوش چھوڑ گئے، یکے بعد دیگر گرامی شیوخ کا پردہ فرما جانا، امت اسلامیہ کے لیے بطور خاص طلبائے علوم اسلامی کے لیے عظیم سانحہ ہے، بلکہ ان کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں،کیوں کہ ہم نے اسلام کو انہی بزرگوں سے سمجھا ہے، اور اخلاق نبوت کو انہیں پاکیزہ ہستیوں میں دیکھا ہے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی علم کو بندوں سے ایک دم نہیں کھینچ لیتا، بلکہ علماء کی موت سے علم کو اٹھا لیا جاتا ہے،یہاں تک کہ کوئی (حقیقی) عالم باقی نہیں رہتا، تو لوگ جاہل کو اپنا پیشوا بنا لیتے ہیں، پس ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیتے ہیں خود گمراہ ہوئے دوسروں کو گمراہ کئے۔(بخاری، مسلم)

عمدۃ المحدثین حضرت العلامہ محمد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نہ صرف حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ قدس سرہ العزیز کے مسلک اور مشرب پر تھے،بلکہ جامعہ نظامیہ کے منشأ  تأسیس کے جانثار محافظ اور حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے کمالات کے مظہر،اور حقیقی وارث تھے، علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کے روح رواں رہے،مالیہ کے استحکام اور چرم قربانی کے انتظام میں ممکنہ خدمات پیش کیں، عالم عرب میں جامعہ نظامیہ کے تعارف میں نمایاں کردار ادا کیا،جامعہ نظامہ کی تاریخ میں ایسی ہمہ جہت شخصیت کی نظیر نہیں ملتی ’’خدا رحمت کند  ایں عاشقان پاک طینت را‘‘حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ عموما  اٰیت مبارکہ’ثلۃ من الأولین وقلیل من الآخرین‘سے استدلال کرتے اور فرماتے:  ’’زمانہ اہل اللہ اور باکمال اہل علم سے خالی نہیں رہتا، سابقہ زمانوں میں کثرت سے ان کا وجود تھا،تو آج کے دور میں  بھی ان کا وجود ہے، گرچہ ان کی تعداد کم ہو، اور بلاشبہ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ اسی آیت کے بمصداق متأخرین علماء میں متقدمین علماء کی شان و کمالات کے پیکر گزرے ہیں، اگر کسی آیت قرآنی میں حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی زندگی کو جاننا چاہیں تو سورۃ الانعام کی آیت نمبر 162 ہماری رہنمائی کرتی ہے

’ ’قل إن صلاتي و نسکي و محیاي و مماتي لله رب العالمین‘‘

ترجمہ: آپ فرمادیجئے: یقینا میری نماز، میری قربانی،اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، آپ اخلاص و للّٰہیت،بے نفسی اور سادگی کے پیکر تھے، اور تصوف کا دوسرا نام اخلاص و احسان ہی ہے، بقول حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ:ہزاروں سالکوں میں  سے کسی ایک کو اخلاص اور مقام رضا کی دولت سے سرفراز کئے جاتے ہیں۔(مکتوبات شریف، دفتر اول مکتوب 36).

اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ سالک کو تزکیہ نفس حاصل ہوجائے،عزت،شہرت کے ترک کا اہتمام کیا جائے،اور ہر وقت اپنے تمام اعمال حسنہ کو رضائے الٰہی کے لئے مخصوص سمجھا جائے،اور اخلاص پر استقامت نصیب ہوجائے۔ اور حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ بھی بفضل الہی متصف ر ہے، چونکہ حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کو مبالغہ قطعا گوارا نہ تھا، لیکن یہ گناہ گار دل فضل الہی سے پرامید ہے کہ ’’إلا عبادک منھم المخلصین‘‘کے کسی زمرے میں آپ کا مقام ضرور ہوگا، اس دور پرفتن میں اخلاص جیسی نعمت عظمی کمیاب بلکہ عنقا ہے، نیز حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ طلباء کو اخلاص اختیار کرنے اور اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتے،اور فرماتے: جو دکھاوے کے لئے کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا میں ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ ریاکار ہے۔’’من سمّع سمّع اللہ بہ‘‘(بخاری)

اسی اخلاص اور للہیت  کا اثر تھا کہ آپ میں غایت درجہ کی سادگی تھی، اور کسی معاملہ میں تکلف اور تصنع پسند خاطر نہ تھا،اور’’وما أنا من المتکلفین‘‘کے عملی نمونہ تھے۔

توکل اور تقوی: آپ نے متوکلانہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، توکل سے متعلق اپنے والد ماجد گرامیء قدرکی  نصیحت کا بار بار ذکر فرماتے: ایک

مرتبہ والد ماجد نے رات کے وقت باؤلی کے کنارے نصیحت کی تھی اور فرمایا تھا’ ’توکل کارخانہ کا خدا خود خانساماں ہے‘‘ اور فرمایا کہ:

فکر ما در کار ما آزار ما٭کارسازمادر فکر ماکار ما

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو عقل معاد اور عقل معاش سے سرفراز فرمایاتھا،لیکن آپ نے کبھی عقل معاش کو  استعمال نہیں کیا اور نہ اس کی طرف توجہ دی، بلکہ توکل اور قناعت کی زندگی بسر کی، کثیرالعیال ہونے کے باوجود اپنی تمام تر توانائیاں اسلام کی خاطر افراد کو تیار کرنے میں صرف کر دی،کبھی آپ کو حصول معاش کے لئے جدوجہد کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا،اور نہ ہی اس بارے میں آپ متفکر یا پریشان نظر آئے،جب اس خاکسار نے سوال کیا کہ: اہل خانہ نے کبھی وسیع گھر کی خواہش ظاہر نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا:کبھی بھی اس کی طرف توجہ نہیں ہوئی.

آپ ہمیشہ طلبا کو تقوی اختیار کرنے کی تلقین کرتے اور فرماتے ’’واتقوااللہ ویعلمکم اللہ‘‘(سورۃ البقرۃ 282)تم تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ تم کو علم عطا فرمائے،اور فرماتے: برکتوں اور فیضیابی کیلئے تقویٰ کا حصول ناگزیر ہے، اور تقویٰ کے بغیر علم کی طلب گویا صرف الفاظ و حروف اور لکھیروں کو یاد کرنا ہے.

آپ متحرک،فعال،چاق وچوبند،  تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبا کو پسند فرماتے، طلباء میں انتظامی صلاحیت دیکھتے تو خوش ہوتے اور ہمت افزائی کرتے،درس کے پہلے دن آپ نے فرمایا تھا:’’جو طالب علم درسگاہ میں سوال نہ کرے اس کو جنگل بھیج دیا جائے، اور جو مریدخانقاہ میں سوال کرے اس کو بھی جنگل کو بھیج دیا جائے‘‘۔

حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کو فکر سازی اور ذہن سازی پر غیرمعمولی ملکہ حاصل تھا، وہ غیر شعوری طور پر شخصیت سازی کا ہنر جانتے تھے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی طالب علم فکر صحیح اور ضبط اوقات کے بغیر کامیابی کے منازل کو طئے نہیں کر سکتا، اس لیے آپ طلباء کی  ذہن سازی اور ضبط اوقات پر غیر معمولی توجہ دیتے، مندرجہ ذیل حدیث سے ترغیب دیتے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:واقعی دین آسان ہے، دین میں کوئی ہرگز شدت اختیار نہ کرے اور جو شدت اختیار کرے گا توشدت اس پر غالب آجائے گی پس تم درستگی اور صواب کو پاؤ، باہم قریب ہو جاؤ،(ایک دوسرے کی مدد کرو) خوشخبری دیا کرو اور سفر میں صبح کے وقت، شام کے وقت اور سحر کے وقت سے فائدہ اٹھایا کرو۔

اس حدیث شریف میں دین اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے، کہ وہ آسان ہے، اس میں تنگی یا کوئی حرج نہیں،افراط وتفریط، شدت،اور غلوکو ترک کرنے اور میانہ روی  کواختیار کرنے کی تلقین ہے،نیز تعلیم ہو یا سلوک یا کوئی سفر ہو صبح سویرے شروع کرنے اور اوقات کار کو تقسیم کرکے مسلسل محنت کرنے کی ترغیب ہے۔

حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ عربی زبان میں گفتگو کرنے والے طلباء کو بے حد پسند فرماتے، نحو صرف کے قواعد فن بلاغت اور علم العروض کے علاوہ جدید ادب پر قدرت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے،تادم زیست عربی زبان کے ماحول کو پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کی، مختلف مذاکرے اور عربی شاعروں کے داغ بیل ڈالی، علمی وقار سے تقریر کرنے کی نصیحت کرتے اور حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب مدظلہ العالی شیخ الجامعہ، جامعہ نظامیہ کے اسلوب خطابت کو بہترین اسلوب قرار دیتے، اس خاکسار کو شعلہ بیانی سے منع فرمایا،اوروجہ بیان کی کہ اس سے سینے پر بار پڑتا ہے،طویل عرصہ تک  ایسے اسلوب خطابت کو جاری نہیں رکھا جا سکتا،ادب کو دینیات  میں کمال پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ سمجھتے،لیکن دینیات کے بجائے صرف ادبیات میں مہارت کو اہمیت نہیں دیتے۔عربی زبان و ادب میں خدمات کی بنا پر ایک ادیب کو man of the year کا ٹائٹل دیا گیا، اور اس کی اطلاع  اخبار میں شائع ہوئی تو خاکسار کو ایسے طریقے پر چلنے سے منع فرمایا،جامعہ نظامیہ میں میرا تقرر بحیثیت استاذ ہوا تو دو نصیحتیں کی(1) نظامیہ میں گروپ نہیں بنانا (2)قانونی گرفت میں نہیں آنا۔

حضرت شیخ الحدیث  علیہ الرحمہ کی زندگی کا ایک نہایت روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کا کسی سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیںتھا،خصومت اورنزاعات  سے آپ کی زندگی پاک تھی، ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا میں تم کو وہ نصیحت کرتا ہوں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کوفرمائی تھی: فرمایا تھا:اے میرے پیارے بیٹے اگر تم کرسکتے ہو تو صبح ایسی کرو کہ تمہارے دل میں کسی سے متعلق کچھ نہ رہے،اور شام ایسی کرو کہ تمہارے دل میں کسی سے متعلق کچھ نہ رہے، اور یہی میرا طریقہ ہے اوریہی انبیاء کا طریقہ ہے۔

وصلی اللہ تعالی وسلّم علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین

 

از : حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیرصاحب  حفظہ اللہ
سابقہ نائب مفتی جامعہ نظامیہ۔ پیشکش مولوی محمد افتخار صاحب استاذ المعہد