حضرت عمدۃ المحدثین ،ایک بلند پایہ محدث اور شارح حدیث

0

عمد ۃ المحدثین اشرف العلماء استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد خواجہ شریف صاحب رحمتہ اللہ تعالی علیہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے حضرت کی با برکت زندگی کے جس پہلو پر بھی آپ نظر ڈالیں اسکو نہایت ہی تابناک اور درخشاں پائینگے۔
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو جامعہ نظامیہ کے اساطین علم و معرفت ‘اہل اللہ ‘اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل ہوا‘ چونکہ شیخ الاسلام بانئ جامعہ نے اخلاص و للہیت‘ محبت خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حب اہل بیت وصحابہ کرام کی اساس پر اس ادارہ کی تاسیس عمل میں لائی ‘جامعہ کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کو انواراللہی فیضان ورثے میں نصیب ہوا ، وہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ذات اقدس سے بے پناہ عشق و محبت اور وارفتگی و نسبت رکھتے ہیں اسی قافلہ کی سرخیل ہستیوں میں ایک روشن نام حضرت عمدۃ المحدثین کا ہے ۔حضرت برصغیر کے عظیم محدث‘ دور اندیش مفکر‘ عربی زبان کے صاحب دیوان شاعر‘ فن ترجمہ کے ماہر‘ علوم بلاغت میں باکمال ؛بلکہ جملہ علوم وفنون میں امامت کے درجہ پر فائز تھے، بلند اخلاق ‘ پاکیزہ کردار ‘ شیریں گفتار‘ متواضع و بردبار‘ شب زندہ دار‘ عشق نبوی سے سرشار‘ خداترس‘ صاحبِ بصیرت وعزیمت ‘شخصیت ساز ‘جامع الکمالات اور نمونۂ اسلاف بزرگ تھے۔
آپ کے جلیل القدر اساتذہ
حضرت مولانا سید محمود ابوالوفاافغانی صاحب مؤسس احیاء المعارف النعمانیہ شیخ الفقہ، حضرت مولانا مفتی سید محمود کان اللہ لہ، حضرت مولانا مفتی محمد عبد الحمید صاحب شیخ المعقولات و شیخ الجامعہ ،حضرت مولانا مفتی محمد مخدوم بیگ صاحب شیخ الفقہ ومفتی جامعہ نظامیہ،حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین صاحب ناظم جامعہ نظامیہ، حضرت مولانا حکیم محمد حسین صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ،حضرت مولانا حاجی محمد منیر الدین صاحب شیخ الادب جامعہ نظامیہ،حضرت مولانا مفتی شیخ سعیدصاحب شیخ الفقہ وشیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ، حضرت مولانا محمد عثمان صاحب شیخ التفسیر ،حضرت مولانا غلام احمد صاحب شیخ العقائد،حضرت مولانا سید طاہر رضوی صاحب صدرالشیوخ،حضرت مولانامفتی محمد ولی اللہ صاحب شیخ المعقولات،حضرت مولانا شیخ صالح باحطاب شیخ المعقولات حضرت مولانا عبدالرحمن الحمومی شیخ التجوید رحمۃ اللہ علیہم جیسی نابغہ روزگار ہستیوں سے آپ نے اکتساب فیض کیا۔جامعہ نظامیہ میں آپ نے از اول تا آخر علم حاصل کیا۔
مادر علمیہ میں تدریسی سفر
آپ نے اپنی مادرعلمیہ میں بحیثیت استاذ اپنے تدریسی سفر کا آغازفرمایا،جامعہ نظامیہ کی جانب سے دارالعلوم دینیہ بارگاہ حضرت بندہ نواز کی نشأۃ ثانیہ کے لئے حضرت سید محمد محمد الحسینی سجادہ نشین بارگاہ حضرت بندہ نواز کی دعوت پر تشریف لے جاکر چھ ماہ تدریس کا خوشگوار فریضہ انجام دیا۔پھر جامعہ میں مختلف عہدوں پر خدمت انجام دیتے ہوئے ’’شیخ الادب‘‘کے عہدہ پرمتمکن ہوئے بعد ازاں ’’شیخ الحدیث ‘‘کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔آپ ’’مرکز تحقیقات اسلامیہ جامعہ نظامیہ‘‘کے ناظم اور ’’مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ‘‘کے معتمد رہے۔قدیم صالح وجدید نافع کا حسین سنگم ایک منفرد کالج ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیہ والعربیہ‘قائم کیا،’’المعہد الدینی العربی‘‘’’مرکز احیاء الادب العربی ‘‘کے بانی وموسس ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے ایک اسلامی ریسرچ سنٹر بھی قائم فرمایا،انتظامیہ نے اسے ’’عمدۃ المحدثین ریسرچ سنٹر‘‘سے موسوم کیا۔
حلقہائے دروس حدیث کا اہتمام
آپ نے شہر اور اطراف واکناف میں متعدد دینی مدارس ومعاہد کی داغ بیل ڈالی، شہر کی متعدد مساجد میں حلقہائے دروسِ بخاری وزجاجۃ المصابیح کا بنفس نفیس سلسلہ جاری فرمایا۔ حضرت شیخ الحدیث ‘تقریباً پانچ دہائیوں سے جامعہ نظامیہ میں امہات الکتب کی تدریس کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ زائد از تین دہائیوں سے صحیح بخاری کا درس دیتے رہے، اور کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ میں روز اول ہی سے تدریس فرماتے رہے۔
درس حدیث کی خصوصیات اور اسلوب تدریس
آپ درس حدیث کے لئے جب جماعت میں رونق افروز ہوتے تو ایسامحسوس ہوتا کہ گویاساراماحول روحانی کیفیات سے معمور ہوچکا ہے، علوم نبویہ کا فیض جاری ہے اور رحمت وسکینہ نازل ہورہی ہے، آپ کے دروس میں تزکیہ نفوس اور تربیت اخلاق کا پہلو نمایاں تھا، اندازِ بیان نہایت جامع ‘دل نشین‘اختلافی مسائل میں معتدل‘ محققانہ وغیرجارحانہ اوراطمینان بخش ودل پذیر ہوتا تھا، ترجمۃ الباب اور احادیث شریفہ کے درمیان مطابقت بیان کرتے، الفاظِ غریبہ کی تحقیق کرتے، علوم بلاغت‘ بیان‘معانی وبدیع سے متعلق بحث کرتے، مذہبِ حنفی کے دلائل اور وجوہِ ترجیح بتلاتے، مسلک اہل سنت کی حدیثی دلائل سے تائید واثبات کرتے اورافکار باطلہ کی تردید کرتے، عالمی سیاسی و سماجی حالات پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے اور اس کی جانب احادیث شریفہ میں وارد اشاروں کی وضاحت کرتے، جدید انکشافات وعصری مسائل پر احادیث کی روشنی میں گفتگو کرتے۔ حدیث شریف کا اس طرح ادب فرماتے کہ ہمیشہ دوزانو بیٹھ کردرس دیا کرتے،صبح سے شام تک یہی حال ہوتا۔
عرب علماء کا زانوے تلمذ اور آپ سے اخذ حدیث
حضرت عمدۃ المحدثین نے مدینہ منورہ میں عرب علماء کو جب بخاری شریف کا درس دیا تو علوم ومعارف کے وہ دریا بہائے کہ عرب علماء نے کہا : ایسے نادر نکات ہم نے پہلی بار سنے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب‘شان نورانیت‘اختیارات اور دور ونزدیک سے بنفس نفیس صلاۃ وسلام سماعت فرمانے جیسے موضوعات پر احادیث شریفہ سے استدلال کرتے ہوئے نہایت حکمت وبصیرت سے تفہیم کروائی کہ سب مطمئن ہوگئے۔
آپ کے تلامذہ نے مدینہ منورہ میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا اور حضرت مفکر اسلام مولانا مفتی خلیل احمد دامت برکاتہم العالیہ کو بطور خاص مدعو کیا تھا ، اس وقت دیگر معتقدات اہل سنت پر علمی گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا ، ان علماء نے دور ونزدیک سے بنفس نفیس صلوٰۃ وسلام سماعت فرمانے کے مسئلہ پر حضرت مفکراسلام سے رجوع کیاتو حضرت نے بھی دلیل عقلی ونقلی سے تشفی بخش جواب باصواب عنایت فرمایاکہ اذعانی کیفیت محسوس ہونے لگی۔ حضرت شیخ الحدیث کا جامعہ نظامیہ سے قلبی تعلق تھا،جامعہ کے مالیہ کے استحکام اور کلیۃ البنات،دار الحدیث،دار التفسیراور دیگر تعمیری وتعلیمی ترقیاتی کاموں میں حضرت شیخ الجامعہ مفتی خلیل احمد کے ساتھ حضرت کا مکمل تعاو ن وحصہ رہا۔قول وفعل،ظاہر وباطن ہر لحاظ سے طہارت وصداقت کاآپ اعلی نمونہ تھے۔
حجاز مقدس‘کویت‘دبئی‘ملیشیاء‘قطر‘جرمن اور مختلف ممالک میں آپ کو مدعوکیا گیا ،وہاں کے علماء واساتذہ نے آپ سے درس حدیث لیا اور اسانید بھی حاصل کیں۔ جرمنی میں حضرت فضیلۃ الشیخ دکتور محمد حسن ھیتوکی خصوصی دعوت پر شیخ الحدیث نے صحیح بخاری شریف اور حضرت شیخ الجامعہ مفکرا سلام مولانا مفتی خلیل احمد دامت برکاتہم العالیہ نے ترمذی شریف کا بزبان عربی درس دیا۔
عرب وعجم کے بے شمار طالبان علوم وفنون نے آپ سے اکتساب علم وعرفان کیا ہے،احقرکو اوراحقر کی اہلیہ ، دونوں فرزندوں اور بہنوئی صاحب، چودہ(14) بھانجوں ایک بھانجی کو اپنے اپنے دور طالب علمی میں حضرت سے دیگر کتب کے ساتھ صحیح بخاری شریف مکمل پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا درس صحیح بخاری ہو کہ درس صحیح مسلم ‘سنن ابوداؤد ہو کہ سنن نسائی‘ سنن ترمذی ہو کے سنن ابن ماجہ‘ یا دیگر کتب احادیث و تفسیر کا درس ‘ بنیادی اور مرکزی طور پر آپ جن امور کی طرف توجہ مبذول کرواتے وہ تصحیحِ عقائد ‘تحسینِ نیت ‘ تربیتِ اخلاق ‘ استخراج مسائل ‘ اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و ارتباط ہیں۔

معرفت حدیث کے لئے سو(۱۰۰)علوم سے واقفیت کی ضرورت
حضرت عمدۃ المحدثین مطالب حدیث شریف اور اس کے معارف سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ بات ذہن میں رہے کہ حدیث شریف کے مطالب تک پہونچنے اور اس کے معنی کی گہرائی میں اترنے کے لئے علوم عربیہ اور علوم بلاغت میں مہارت اور خاص طور پر علم بدیع سے کمال واقفیت اور محسنات بدیع کی عملی تطبیق اور معرفت حدیث شریف سے متعلقہسو(۱۰۰) علوم سے واقفیت کی ضرورت ہے اور ان تمام امور کے ساتھ ذوقِ سلیم اور قلب ونظر کی پاکیزگی ضروری ہے ورنہ محض ظاہری ترجمہ اور کچھ استنباطی صلاحیت تک رسائی ہوجاتی ہے ، درحقیقت ہر حدیث شریف ایک بحرزخار کی طرح ہے اس کی ایک حدیث بھی قلب ونظر کی اصلاح وانقلاب اور دارین کی صلاح وفلاح کے لئے کافی ہے‘‘۔
اب آئیے حضرت عمدۃ المحدثین رحمہ اللہ کی محدثانہ تشریحات و توضیحات کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ۔
جن ممالک میں چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ہے یا مستقل دن یامستقل رات ہوتی ہے وہاں نمازوروزہ کا حکم ؟
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ عالمی سطح پر غور کرتے اور آفاقی فکر کے ساتھ حدیث پاک کی شرح فرماتے ، نئے مسائل کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں حل کرتے ، صحیح مسلم میں دجال کے فتنہ سے متعلق طویل حدیث پاک ہے جس میں مذکور ہے : قلنا یارسول اللہ وما لبثہ فی الارض قال اربعون یوما یوم کسنۃ ویوم کشھر ویوم کجمعۃ وسائر ایامہ کأیامکم ، قلنا یارسول اللہ فذلک الیوم الذی کسنۃ أتکفینا فیہ صلوٰۃ یوم قال لا، اقدروا لہ قدرہ ۔
ترجمہ: (راوی نے کہا: )ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دجال زمین پر کتنے دن رہے گا؟ فرمایا: چالیس دن ، ایک دن ایک سال کی طرح ہوگا، ایک دن ایک مہینہ کی طرح ، ایک دن ایک ہفتہ کی طرح اور اس کے باقی دن تمہارے دنوں کی مانند ہوں گے، ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو جو دن ایک سال کے برابر ہوگا کیا ہمیں اس دن ایک دن کی نمازیں کافی ہوں گی ؟ فرمایا: نہیں ؛ اس دن تم وقت کا اندازہ کرو(اور نماز پڑھا کرو!) (صحیح مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ ومامعہ ، حدیث نمبر:2937)
اس حدیث پاک کی شرح میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے فرمایاکہ
’’جن ممالک میں چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ہے یا مستقل دن یامستقل رات ہوتی ہے اُن ممالک میں نماز کا حکم اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر وقت کے ساتھ نمازوں کو ادا کرنا چاہئے، اقرب الاماکن میں پانچ نمازوں کے جو اوقات ہیں اُن اوقات کا اندازہ کرکے اس کے مطابق نماز پڑھنا چاہئے‘‘۔ جن علاقوں میں ۲۲ یا ۲۳ گھنٹوں کا دن ہوتاہے حضرت شیخ الحدیث اُن مقامات میں سحر وافطار کے مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے تھے اور طلبہ کو مذکورہ حدیث پاک کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنے کی ترغیب دیتے۔
ماء قلیل و ماء کثیر میں اختلافِ ائمہ کی حکمت
ماء کثیر کے سلسلہ میں جو احادیث شریفہ ہیں اس کی شرح کرتے ہوئے حضرت نے فرمایاکہ
’’فقہ حنفی میں ماء کثیر وہ ہے جو دہ دردہ ہو ، اُس سے کم ہو تو ماء قلیل ہے ، فقہ شافعی وفقہ حنبلی میں قلتین ماء کثیر ہے ، اس سے کم مقدار ماء قلیل ہے ، مذکورہ تینوں مذاہب کے پاس ماء قلیل میں کوئی نجاست گرجائے اور اس کی وجہ سے رنگ ‘ بو یا مزہ تین اوصاف میں سے کوئی ایک وصف نہ بدلے تب بھی وہ ناپاک ہوجاتاہے اور فقہ مالکی کے مطابق پانی کثیر ہو یا قلیل نجاست گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا البتہ نجاست کا رنگ یا بو یا مزہ اس میں ظاہر ہوجائے تب ناپاک ہوجاتا ہے ‘‘۔
ایشیاء کے علاقوں یمن ، لیبیا، اردن میں اور افریقہ کے علاقوں مغربی سہارا، جِبُوتی میں پانی کی قلت ہوتی ہے اور افریقہ کے علاقوں سوڈان ، ایتھوپیا اور ساؤتھ امریکہ کے وینیزیولا میں پینے کے لئے بھی صاف پانی میسر نہیں ہوتا۔
حنفی فقہ مشرقی علاقوں میں اور مالکی فقہ مغربی علاقوں میں زیادہ ہے، حضرت شیخ الحدیث قبلہ نے اپنے استاذ گرامی حضرت مفتی محمد عبد الحمید صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے حوالہ سے فرمایا کہ
’’حنفی فقہ مشرقی علاقوں میں زیادہ شائع ہوئی جہاں پانی کی فراوانی ہے ، اور فقہ مالکی پر عمل کرنے والے افریقہ کے علاقوں میں زیادہ ہیں جہاں پانی کی غیر معمولی قلت ہے ‘‘۔
رفع تعارض کا ایک انوکھا انداز
اسلامی نصوص اور فقہی اصول و جزئیات پرحضرت کی گہری نظر تھی۔ روایات وآثار اوراقوال ائمہ کے درمیان واقع ظاہری تعارض کو انتہائی بصیرت کے ساتھ دور کرتے، ایسی تطبیق اور توجیہ کرتے کہ طالبانِ علوم کو انشراحِ صدر نصیب ہوتا۔
نکاح سے متعلق جامع ترمذی میں حدیث شریف ہے : عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل ۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اُس کا نکاح باطل ہے، اُس کا نکاح باطل ہے،اُس کا نکاح باطل ہے،۔
(سنن ترمذی، ابواب النکاح)
اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے دیگر معانی و مفاہیم کے ساتھ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ نے ایک توجیہ یہ بھی بیان فرمائی’’یہاں باطل سے مراد غیر دائمی اور ناپائیدارلیا جائے تو ، اس معنی کے لحاظ سے حدیث پاک اور آیت کریمہ حتی تنکح زوجا غیرہ میں جوبظاہر تعارض معلوم ہورہاتھا وہ رفع ہوجاتاہے‘‘۔
ایک مومن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے ‘عرفانی توجیہ
سنن ابوداؤد میں حدیث پاک ہے : المؤمن مراٰۃ المؤمن ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے ، اس کا ایک معنٰی تو یہ ہے کہ کسی مسلمان میں کوئی عیب نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنی چاہئے ، جیسے آئینہ عیب بتاتاہے اسی طرح دیکھنے والے مسلمان کو چاہئے کہ اُس کے لئے آئینہ بن جائے اور اُس کا عیب بتلادے ۔
اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے حضرت نے اپنے استاذ والا شان حضرت مفتی محمد رحیم الدین صاحب ناظم جامعہ مفتی صدارت العالیہ قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے فرمایاکہ
’’ایک مسلمان کے لئے دوسرا مسلمان آئینہ ہے ، لہذا دیکھنے والا مسلمان اگر دوسرے مسلمان میں کوئی عیب دیکھے تو اُسے چاہئے کہ اسکے ذریعہ اپنے عیب پر اطلاع ہورہی ہے سمجھ کراپنے اندر کے عیب کو دور کرے ؛ کیونکہ وہ مسلمان اس دیکھنے والے کے لئے آئینہ ہے اور وہ اِسی کا عیب ظاہر کر رہاہے‘‘۔
رات میں جودو سخاکیسے اور کس طرح؟ حدیث سخاوت کے وجد آفریں معانی
صحیح بخاری شریف میں جود و سخا سے متعلق حدیث پاک ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انسانوں میں سب سے زیادہ سخاوت فرمانے والے ہیں اور سب سے زیادہ سخاوت اس وقت فرماتے جب جبرئیل امین آپ سے ملاقات کے لئے آتے اور جبرئیل امین رمضان کے ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے اور یقینارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے لئے بھیجی ہوئی ہوا سے زیادہ سخی تھے۔
مذکورہ حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے حضرت نے وجد آفریں معانی وعوارف بیان کیے ہیں:
’’اور ایک سوال یہ ہوتا کہ رمضان المبارک میں اور خصوصًا جبرئیل امین کے ساتھ مدارسۃ قرآن مجید کی راتوں میں آپ کیا جود وسخاکرتے اور کس کو کیا دیتے تھے کہ رات کے اس وقت آپ کے پاس کوئی شخص وہاں ہوتا بھی نہیں تھا۔ اس کے جواب کے لئے چند باتیں ملحوظ رکھیں !
ایک بات یہ کہ اس کائنات ارضی وسماوی میں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی نعمتوں سے سرفرازی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قاسم بنایا، امام بخاری نے کتاب العلم میں تخریج کی ہے آپ نے فرمایا: انما انا قاسم واللہ یعطی۔ اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتاہوں، اس کا مفعول یعنی مقسوم کو محذوف کردیا گیا ہے کیونکہ وہ عام ہے یعطی کا جو مفعول ہے وہی قاسم کا مفعول ہے جو مادی ومعنوی ہر قسم کی تقسیم کو شامل ہے ۔
دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اجود الناس یعنی تمام انسانوں سے یعنی ساری کائنات میں سب سے زیادہ اجود ہیں، چونکہ انسان اس کائنات میں سب سے زیادہ اشرف واعلیٰ ہے ، اعلیٰ کا ذکر ادنیٰ کے ذکر سے بے نیاز کردیتا ہے ، یعنی انسان کے ذکر کے بعد دیگر خلائق کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی تو مطلب یہ ہوا کہ انسان ہی نہیں بلکہ ساری مخلوقات کائنات ارضی وسماوی میں آپ سب سے زیادہ جود وسخا والے ہیں ، اب جود کا مطلب ذہن میں رہے ، اہل لغت اور شارحین حدیث علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام لکھتے ہیں : جود کے معنٰی ہے اعطاء ماینبغی لمن ینبغی یعنی ہرایک کو اس کی ضرورت کے مناسب عطاء کرنا ؛خواہ وہ ضرورت مادی ہو یا معنوی ، ہرایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیتے رہنا ۔ احادیث شریفہ میں اور بخاری شریف میں بھی اس کے بہت سے واقعات موجود ہیں مثلاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حافظہ کی ضرورت تھی تو آپ نے ان کو حافظہ دے دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو تفسیر وفقہ عطا فرمادیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم فرمادیا تھا کہ ہر آنے والے کو اس کی ضرورت کی چیز کا شانۂ نبوت سے عطاء کردینا ؛ اگر اتفاق سے نہ رہے تو قرض لے کر اس کی ضرورت کو پوری کردینا پھر بعد میں اس قرض کی ادائی کردی جاتی تھی۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو قیادت دے دی اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچوں کو حیات دے دی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو عدالت عطا کردی۔ اہل بیت اطہار کو طہارت عطا کردی ہرمسلمان کے لئے اپنی شفاعت عطا فرمادی ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان کو اس آیت میں بیان فرمایا: وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ۔ سارے عوالم کے لئے آپ کو ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہے ۔ اب اجود الناسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ کائنات کی جملہ مخلوقات کو ان کی ضرورت کی چیز ان کی مناسبت سے عطا فرماتے تھے ، یہ اس لئے تھاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قاسم اور رحمۃ للعالمین بنایا، آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتاہے اور آپ اس کو تقسیم کرتے ہیں اسی لئے آپ کو برزخ کبریٰ کہا جاتاہے ۔
رمضان المبارک کی راتوں میں کائنات کے لئے جود وسخا کا مطلب یہ ہوا کہ آپ رمضان المبارک کی راتوں میں کائنات کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ان کی حسب ضرورت تقسیم کے فیصلے فرماتے ۔ آپ کی اسی فیاضی اور جود وسخا کی بے انتہاء فراوانی کو بتانے کے لئے کان أجود الناس من الریح المرسلۃ کہا گیا۔
خیر کے لئے بھیجی گئی ہوا سے زیادہ سخی وفیاض تھے ، ہوا ہرانسان کے لئے ہرلمحہ ضروری ہے اور جب اس ہوا کو خیر کے لئے بھیجا جاتاہے تو موسم خوشگوار ہوجاتاہے اور وہ بارش لاتی ہے ، اس سے ندی ، نالے اور دریا بہنے لگتے ہیں ، کھیت اگتے ہیں زراعت ہوتی ہے زمین لہلہانے لگتی ہے ، پھول کھلتے کلیاں چٹکتی ہیں ، پھل لگتے ہیں ، کائنات کو اس کی حیات کا سامان مل جاتاہے ، آپ کی سخاوت کو کون شمار کر سکے ، آپ ﷺ کی سخاوت تو اس سے بھی زیادہہوتی تھی ، وہ دین ودنیا کی سلامتی اور عاقبت وآخرت کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے اور خیر کو لانے والی یہ خوشگوار ہوا بھی آپ کی سخاوت سے ہے ، بے شک آپ اس کائنات میں رب تعالیٰ کے دربار کا سرا پردہ نور اور برزخ کبریٰ ہیں، چنانچہ مسلم کی حدیث حجابہ النور میں اسی طرف اشارہ ہے‘‘۔ (ثروۃالقاری ،حصۂ چہارم ، ص۲۵ ص۲۷)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سب سے آگے رہتی‘ ایک نفیس استدلال
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ درس حدیث کے موقع پر طلبہ کے درمیان نکات کے انمول موتی لٹاتے اور مختصر الفاظ میں بیش بہا جواہر پارے عطاء فرماتے تھے ، صحیح بخاری شریف کتاب الجھاد والسیر باب ناقۃ النبی صلی للہ علیہ وسلم کے تحت حدیث پاک ہے : عن انس رضی اللہ عنہ قال کان للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ناقۃ تسمی العضباء لاتسبق قال حمید اولاتکاد تسبق فجاء اعرابی علی قعود فسبقھا فشق ذلک علی المسلمین حتی عرفہ فقال حق علی اللہ ان لایرتفع شئی من الدنیا الا وضعہ ۔
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ فرمایا: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضبا ء تھا، کوئی سواری اُس کے آگے نہیں جاتی تھی ، محدث حمید نے کہا کہ کوئی سواری اُس کے آگے جانے کے قریب نہیں ہوتی تھی ، تو ایک اعرا بی ایک جوان اونٹ پر سوار آئے اوراس اونٹنی کے آگے بڑھ گئے ، مسلمانوں پر یہ بات شاق گزری یہاں تک کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاق گزرنے کو محسوس کر لیا تو ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ دنیا میں سے کوئی چیز بلند نہ ہو مگر اللہ تعالی اُسے نیچا کرے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الجھاد والسیر، باب ناقۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر:2872)
عمومًا شارحین نے اس کا مصداق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو قرار دیا ، لیکن حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ ہوتی تھی ، وہ دین ودنیا کی سلامتی اور عاقبت وآخرت کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے اور خیر کو لانے والی یہ خوشگوار ہوا بھی آپ کی سخاوت سے ہے ، بے شک آپ اس کائنات میں رب تعالیٰ کے دربار کا سرا پردہ نور اور برزخ کبریٰ ہیں، چنانچہ مسلم کی حدیث حجابہ النور میں اسی طرف اشارہ ہے‘‘۔ (ثروۃالقاری ،حصۂ چہارم ، ص۲۵ ص۲۷)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سب سے آگے رہتی‘ ایک نفیس استدلال
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ درس حدیث کے موقع پر طلبہ کے درمیان نکات کے انمول موتی لٹاتے اور مختصر الفاظ میں بیش بہا جواہر پارے عطاء فرماتے تھے ، صحیح بخاری شریف کتاب الجھاد والسیر باب ناقۃ النبی صلی للہ علیہ وسلم کے تحت حدیث پاک ہے : عن انس رضی اللہ عنہ قال کان للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ناقۃ تسمی العضباء لاتسبق قال حمید اولاتکاد تسبق فجاء اعرابی علی قعود فسبقھا فشق ذلک علی المسلمین حتی عرفہ فقال حق علی اللہ ان لایرتفع شئی من الدنیا الا وضعہ ۔
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ فرمایا: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضبا ء تھا، کوئی سواری اُس کے آگے نہیں جاتی تھی ، محدث حمید نے کہا کہ کوئی سواری اُس کے آگے جانے کے قریب نہیں ہوتی تھی ، تو ایک اعرا بی ایک جوان اونٹ پر سوار آئے اوراس اونٹنی کے آگے بڑھ گئے ، مسلمانوں پر یہ بات شاق گزری یہاں تک کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاق گزرنے کو محسوس کر لیا تو ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ دنیا میں سے کوئی چیز بلند نہ ہو مگر اللہ تعالی اُسے نیچا کرے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الجھاد والسیر، باب ناقۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر:2872)
عمومًا شارحین نے اس کا مصداق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو قرار دیا ، لیکن حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ ’’اس حدیث کا مصداق اُس اعرابی کا اونٹ ہے جو حضور کی اونٹنی سے آگے ہوگیا تھا؛ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آگے رہتی ہے تو بلندی اور سبقت اس کاحق ہے‘ جب اعرابی کا اونٹ آگے ہوگیا تو فرمایا کہ دنیا کی کوئی چیز بلند ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اُسے نیچا کرے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شش جہات برابر ہیں
صحیح بخاری شریف میں نماز سے متعلق حدیث پاک ہے : عن ابی ہریرۃ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ھل ترون قبلتی ھاھنا واللہ ما یخفی علی رکوعکم ولا خشوعکم وانی لأراکم وراء ظھری ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم اس جہتِ قبلہ کو ہی میرے سامنے سمجھتے ہو؟ اللہ کی قسم ! مجھ پر نہ تمہارا رکوع چھپا ہوا ہے اور نہ تمہارا خشوع۔ (صحیح بخاری ، کتاب الصلوٰۃ ، باب الخشوع فی الصلوٰۃ ، حدیث : 741)
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ نے اس حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے فرمایاکہ
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی پشت اطہر کے پیچھے ملاحظہ فرمانا بغیر کسی تعین و قید کے مستمر ودائمی ہے ، آپ ہر وقت پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتے ہیں۔ جس طرح اپنے سامنے ملاحظہ فرماتے ہیں شش جہات آپ کے لیے برابر ہیں یہ سب اللہ تعالی کی عطا سے ہے‘‘۔
حدیث محبت رسول ﷺ کی محدثانہ و عارفانہ تشریح
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ نے محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق حدیث پاک کی جو تشریح فرمائی ہے اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے تاکہ ایک حدیث کی جامع تشریح کا نمونہ دیکھا جاسکے اور یہ معلوم ہوکہ حب نبوی کے تحت حضرت نے کیسے شہ پارے بکھیرے اور کس طرح اوہام و شبہات کا ازالہ فرمایا:
’’حدثنا ابوالیمان قال اخبرنا شعیب قال حدثنا ابوالزناد عن الاعرج عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فو الذی نفسی بیدہ لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے پاس اس کے والد اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب ہوجاؤں۔
یہ محبت رسول کا عنوان ہے کہ ایمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم سے کمالِ محبت ضروری ہے ۔ کیونکہ نفسِ محبت تو ہر کسی سے ہوتی ہے اس عنوان میں حب الرسول سے مراد حبیّت ہے ۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان میں جو حدیثِ شریف لائے ہیں اس میں لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کا ہونا ضروری ہے ۔اب ایک سوال یہ ہے کہ امام بخاری کتاب الایمان کے شروع سے بتاتے آرہے ہیں کہ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلم کی محبت سب سے زیادہ ہوئے بغیر ایمان کا تصور نہیں ہوسکتا، اور جب محبت سب سے زیادہ ہوگی تو اس میں کمی زیادتی کیسے ہوگی؟ ۔
تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ احبیت میں بھی کمی زیادتی ہوتی ہے ۔ اور اس کا انتہائی درجہ فنا فی الرسول ہے جس میں ہرطرف محبوب کا جلوہ نظر آتاہے۔
محبت کی تعریف اور اس کے بارے میں گزشتہ تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اب یہاں محبت رسول سے متعلق تفصیل سے گفتگو کریں گے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ محبت کے متعدد اعتبارات ہیں: مثلاً محبت اجلال وعظمت‘ محبت شفقت ‘ محبت مجانست وغیرہ ۔
ان میں سے ہرایک کی دوقسمیں ہیں: (۱) طبعی وفطری (۲) عقلی واختیاری ۔
طبعی محبت جو خود بخود ہوتی ہے اس میں نفع وضرر پیش نظر نہیں رہتا جیسے شاخ کو اپنی اصل یعنی جڑ سے محبت ہوتی ہے ۔ اور دوسری اختیاری محبت یہ خود بخود نہیں بلکہ کسی سبب کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے کسی صاحب جمال وکمال ونوال سے محبت۔
شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں محبت اختیاری مراد ہے ؛ کیونکہ محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، حکم اس وقت دیاجاتا ہے جب کہ وہ شئی مامور کے اختیار میں ہو۔ لہٰذا یہ محبت اختیاری ہے نیز یہ محبت طبعی بھی ہوسکتی ہے ہم اس کو آخر میں بیان کریں گے ۔ اب ہم یہاں محبت اختیاری کا بیان کرتے ہیں محبت اختیاری کے تین سبب ہیں : (۱) نوال (۲)جمال (۳) کمال
نوال سے مراد جود وسخاء ہے ، قرآن مجید اور حدیث شریف آپ کے جود ونوال کے شاہد ہیں قرآن مجید میں ہے : ’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ آپ رحمۃ للعالمین ہیں ، کائنات میں ہرجگہ آپ کا جود ونوال ہے بخاری شریف کی حدیث ہے ’’ انما انا قاسم ‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں اللہ دیتا ہے میں تقسیم کرتا ہوں ۔ آپ برزخ کبری اور قاسم نعمت ہیں ۔ حدیث شریف میں قاسم کا مفعول محذوف ہے ۔ جملہ کائنات میں مادی ومعنوی ہرچیز کی تقسیم آپ کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ باب کیف کان بدء الوحی میں حدیث گزر چکی ہے کہ ’’ کان أجود الناس‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم أجود الناس ہیں ، اس میں أجود اسم تفضیل کا صیغہ مبالغہ کے لئے ہے ۔ جود کے معنٰی ہیں اعطاء ماینبغی لمن ینبغی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کو جس وقت جو چیز اس کے مناسب ہے دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور صمد ہے اس کی عطا کے لئے کسی واسطہ وسیلہ اور سبب کی ضرورت نہیں ہے ، مگر اس نے دنیا کو اسباب کی دنیا بنایا ہے ، وہ سبب کے ذریعہ سرفراز کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے عمومًا عطا کے لئے سبب درسبب بہت سے اسباب بنائے ہیں اور تمام اسباب کا سبب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا ہے اسی لئے آپ نے فرمایا: ’’ انما أنا قاسم واللہ یعطی‘‘ اللہ دیتا ہے میں تقسیم کرتا ہوں آپ ممکن جامع ہیں برزخ کبریٰ اور نوال ہی نوال ہیں، أوتیت مفاتیح خزائن الأرضزمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دے دی گئی ہیں۔ آپ ہرایک کو اس کی ضرورت کی چیز تقسیم کرتے ، اگر کبھی تقسیم سے کوئی شئی رہ جاتی تو نماز روک کر یا نماز کے فوری بعد اس کو تقسیم کروادیتے۔ کوئی سائل آجاتا اور اتفاق سے کوئی شئی نہ ہوتی تو قرض لے کر اس کی حاجت پوری کردیتے ۔
سنن ابی داؤد شریف باب الخراج میں الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوال کا ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے مقرر فرمایا تھا کہ جب کوئی سائل آئے اور اتفاق سے کچھ نہ ہوتو تم قرض لے کر ضرورت پوری کردینا، بعد میں قرض ادا کردیا جائے گا۔ چناچہ جب کوئی سائل آئے اور کوئی چیز دینے کے لئے نہ ہوتو حضرت بلال کسی سے قرض لیتے اور سائل کی ضرورت پوری کردیتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک یہودی نے کہا : اے بلال ! میں دیکھتا ہوں تم مختلف حضرات سے قرض لیتے ہو ؛ اس کے بجائے بہتر ہے کہ تم مجھ سے قرض لے لیا کرو، مختلف حضرات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی ، تم کو جب بھی ضرورت ہو میں تم کو قرض دے دوں گا، حضرت بلال اس یہودی سے قرض لیتے رہے جب قرض بہت زیادہ ہوگیا اور یہودی کو اندازہ ہوا آپ یہ قرض واپس نہیں کر سکیں گے اور میں ان کو غلام بنالے سکتا ہوں تو وہ حضرت بلال سے کہنے لگا، بلال دیکھو میرے قرض کا حساب کرو اور دیکھو اس مہینے کو ختم ہونے کے لئے چار دن باقی ہیں اگر ختم ماہ تک تم نہ دے سکو تو تم میرے غلام بن جاؤگے۔ آپ سوچتے رہے کیا کیا جائے ؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کئے یا رسول اللہ یہودی نے ایسا کہا ہے اور قرض زیادہ ہوگیا ہے ، اگر کہیں سے کوئی غلّہ آجائے تو ادا کردیں گے ورنہ آپ مجھے اجازت دیں ، پہلی تاریخ کے بعد قرض ادا ہوجانے تک میں کسی دوسری جگہ چلا جاؤں گا ، اور جب قرض ادا ہوجائے گا آجاؤں گا۔ چار دن گزر گئے کہیں سے کوئی ایسی چیز نہیں آئی جس سے یہ قرض ادا کیا جاسکے تو بلال سونچتے رہے مجھے اب کچھ وقت کے لئے کہیں چلا جانا ہے ۔ پھر ایک خیال یہ بھی آیا کہ صبح فجر کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھنے کے بعد چلے جائیں تو اچھا ہے چنانچہ فجر کی نماز پڑھ کر نکل گئے کچھ وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو طلب فرمایا ، صحابہ تلاش کرتے ہوئے پہنچے اور حضرت بلال کو لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بلال ! کیا تم باہر کچھ دیکھے ہو تو بلال نے عرض کیا: ہاں یارسول اللہ کچھ اونٹوں کو آتے ہوئے دیکھا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چار اونٹ ہیں، ان پر غلّہ لدا ہوا ہے اور اس کو ایلہ کے سردار نے روانہ کیا ہے ، تم اس سے قرض ادا کردو ۔ چنانچہ حضرت بلال نے اس یہودی کا قرض ادا کردیا ، یہودی کو تعجب ہوا کہ اس قدر غلہ کہاں سے آگیا۔ پھر بلال نے عرض کیا یارسول اللہ سارا قرض ادا ہوگیا اور غلّہ بہت بچا ہوا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: جو بچا ہوا ہے اس کو بھی تقسیم کردو۔
حضرت بلال اصحاب کو تلاش کر کرکے بلاتے تھے اور دیتے جاتے تھے لیکن اس خیال سے کہ کل پھر لوگ آئیں گے ان کو دینے کے لئے قرض لینے کی نوبت نہ آئے تو اس میں سے کل کے لئے بچا کر رکھے اور عرض کئے یارسول اللہ اصحاب کو تلاش کر کے دیتا گیا اور کل کے لئے کچھ بچاکر رکھا ہوں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: اے بلال ! جب تک یہ سارا تقسیم نہ کردیا جائے ہم گھر کو نہیں جائیں گے حضرت بلال رات میں اصحاب کو بلا بلا کر تلاش کر کے دیتے گئے۔ جب سارا تقسیم ہوگیا تب آپ گھر تشریف لے گئے ۔ بخاری شریف میں واقعہ ہے ایک جنگل میں بدوی آپ سے مانگنے لگے آپ ان کو دیتے گئے وہ مانگتے گئے آپ دیتے گئے پھر آپ نے فرمایا: اس جنگل کے کانٹوں کے درخت کے برابر بھی اس وقت بکریاں ہوتیں تو میں تم کو سب دیدیتا۔
آپ نوال ہی نوال ہیں:
آپ کے نوال کے واقعات کا کیا بیان ہوسکے ، آپ باعث تخلیق کون ومکان ہیں ، آپ ’’ لولاک لما خلقت الأفلاک ‘‘ ہیں ، دنیا کی بھلائی بھی اور آخرت کی بھلائی بھی صرف آپ سے وابستہ ہے ، میدان حشر میں اور آخرت کے ہرمرحلہ میں آپ ہی کی شفاعت کام آئے گی ، آپ نے فرمایا : میں تمہارے لئے فرط ہوں ہماری ہرضرورت کو پورا کرنے کے لئے آپ پہلے سے موجود رہیں گے۔
آپ کے نوال کے واقعات لکھیں تو دفتر ختم ہوجائیں گے۔
اب رہا آپ کا کمال : کمال کا مطلب خوبی کی انتہاء ۔ کائنات میں ہر خوبی کی انتہاء آپ کی ذات مقدسہ ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسم گرامی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھا، باب تفعیل سے حمد کا اسم مفعول اور مبالغہ کا صیغہ ہے ہر خوبی کے مالک ہیں ۔
امام بوصیری رحمہ اللہ نے فرمایا:
منزہ عن شریک فی محاسنہ
فجوھر الحسن فیہ غیر منقسم
اور حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
خلقت مبرء ا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
آپ ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں ۔
گویا آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا پیدا کئے گئے ہیں۔
آپ ہر خو بی کے کمال کے مالک ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے میں سیادت کا مالک ہوں ۔
حدیث شریف میں ہے : ’’ انا سید الناس یوم القیامۃ ‘‘ (بخاری) میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قیامت کے دن انسانوں کے سردار ہیں تو دنیا میں آپ کی سیادت من باب الاولی ہے ۔
اور ایک ترمذی شریف کی روایت میں ہے : ’’ أنا سید ولد آدم ولا فخر‘‘ (ترمذی ، ابواب المناقب) میں اولاد آدم کا سید ہوں اور کوئی فخر نہیں ۔ یعنی سیادت آپ کے لئے علٰحدہ وصف زائد نہیں ہے بلکہ سیادت آپ کا عنصر ہے۔
آپ کا کمال اپنی تمام تر انتہاء پر ہے ، اس کو زوال نہیں ہے ، ’’وانک لعلی خلق عظیم ‘‘ (سورہ قلم) اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالِ اخلاق کا بیان ہے ۔ ’’أوتیت علم الأولین والآخرین‘‘ اس حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے کمالِ علم کا بیان ہے ۔ تمام کمالات کی انتہاء بھی آپ ہی ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے : الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (سورہ انعام ) دین کا کامل ہونا سارے کمالات کی انتہاء ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سارے کمالات آپ میں ختم کردئے ہیں زمین وآسمان ‘ شمس وقمر ‘ شجروحجر‘ بروبحر اور جن وانس ہرایک نے آپ پر کمالات کی انتہاء کا اقرار واعتراف کیا، حتی کہ آپ کے جانی دشمن کفار ومشرکین بھی آپ کے کمالات کے معترف تھے۔
تیسرا سبب جمال:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حبیب ہیں، اور مسلم شریف کی روایت ہے: ’’ اللہ جمیل یحب الجمال ‘‘ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو اپنا حبیب بناتاہے ۔ آپ سرتاپا جمال ہیں ، اور سرتاپا ملاحت بھی ہیں، کوئی بھی جمال بغیر ملاحت کے نہیں آتا آپ فرماتے ہیں : ’’ اخی یوسف أصبح منی وأنا أملح منہ ‘‘ (معالی السبطین) اسی لئے کہاجاتا ہے دنیا کا سارا جمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کا پَرتَو ہے۔
مسلم شریف کی حدیث میں ہے : یوسف علیہ السلام کا جمال رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کا ایک حصہ ہے۔ ’’ فاذا أنا یوسف اذا ھو قد أعطی شطر الحسن ‘‘ (اخرجہ مسلم: مشکوٰۃ ، باب فی المعراج)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: یوسف علیہ السلام کے جمال کو دیکھ کر حسینان مصر اپنی انگلیاں کاٹ لیں اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کا جمال دیکھتیں تو اپنے دل کاٹ لیتیں۔
حدیث شریف میں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کو حجاب میں رکھا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : کبھی آپ کے جمال کی جھلک پڑتی تو میں اندھیری رات میں گری ہوئی سوئی کو اٹھالیتی اور سوئی کے ناکہ میں تاگہ پرولیتی ، حجرۂ مبارکہ کے درودیوار روشن ہوجاتے ۔ اس کو تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت کے موقع پر بی بی آمنہ فرماتی ہیں ایسا نور چمکا‘ میں اس کی روشنی میں ملک شام کے محلات کو دیکھ لی جو مکہ مکرمہ سے سینکڑوں کیلو میٹرسے بھی زیادہ فاصلہ پر ہیں ، پھر درمیان میں ہزاروں مکانات ٹیلے ‘ ندی نالے اور بے حساب اونچے اونچے طویل وعریض پہاڑ حائل ہیں اور اس نور کی جلا ایسی ہے کہ ہزاروں کثافتیں دور ہوئیں اور ہر کثیف چیز لطیف ہوگئی ۔ آپ کے جمال کے بیان کے لئے دنیا کی ساری زبانیں گونگی ہیں ۔ جس قدر جمال ہوتا ہے اس میں اسی قدر لطافت درلطافت ہوتی ہے ، یہ سب کو معلوم ہے کہ آپ پر کبھی مکھی مچھر نہیں بیٹھے ، آپ میں کہیں بھی کوئی لوث نہیں تھا، آپ فرماتے ہیں : ’’ انی واللہ لأری من خلف ظھری کما أری من بین یدی‘‘ ۔(منذری )اور بخاری شریف میں ہے : ’’ فواللہ مایخفی علی خشوعکم ولا رکوعکم وانی لاراکم من وراء ظھری ‘‘ ۔ کیا تم سمجھتے ہوکہ میں صرف سامنے ہی دیکھتا ہوں ؟ میں تو جس طرح سامنے دیکھتا ہوں پیٹھ پیچھے بھی دیکھتا ہوں ، پھر آپ نے پیٹھ پیچھے کی کوئی حد بھی بیان نہیں کی اور فرمایا: میں تمہارے خشوع وخضوع کو بھی دیکھتا ہوں ۔ آپ باطن کے ایمان ونفاق کو بھی دیکھتے تھے ۔ یہ سب آپ کے حسن ہی کا تو کمال ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ کے حسن وجمال کا اعلان فرمایا اور اس میں کوئی شک وشبہ نہ کرے قسم کے ذریعہ فرمایا: قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ۔ (سورہ انعام) جمہور کے پاس نور سے مراد رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم ہیں ، یہ آیت آپ کے سرتاپا نور ہونے کو بتارہی ہے ۔
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
وأحسن منک لم ترقط عینی
وأجمل منک لم تلد النساء
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ’’ یقول ناعتہ لم أر قبلہ ولا بعدہ مثلہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (شمائل ترمذی) آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے تھا اور نہ آپ کے بعد کوئی ہوسکتا ہے۔ آپ بے شک بے مثال وبے نظیر تھے۔ صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد علامہ ابراہیم ادیب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے تھے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ممکن جامع ہیں۔ ہرممکن کی نظیر ہوسکتی مگر ممکن جامع کی نظیر نہیں ہوسکتی ۔
یہ تو وہ اسباب تھے جس کی بناء عقل محبت کا تقاضا کرتی ہے۔ اب جس ہستی میں یہ اسباب جس قدر گہرے ہوں گے محبت بھی گہری ہوگی اور جس ذات والا صفات میں یہ اسباب بلندی کی انتہاء پر ہوں ان سے محبت بھی بے انتہاء ہوگی ۔ اسی لئے ایک مؤمن کے ایمان کا آغاز ہی احبیت سے ہوتاہے۔
اب رہا فطری محبت تو فطری محبت بے اختیاری ہوتی ہے ۔ اس محبت کا تعلق نفع وضرر سے نہیں ہوتا اس میں انسان بے خطر کود جاتاہے۔ اس محبت فطری کے اسباب میں بڑا سبب نسب وقرابت ہے ، چنانچہ باپ بیٹے کی محبت ‘ رشتہ داروں کی آپس میں محبت ۔ اس محبت کو نفع ونقصان سے کوئی واسطہ نہیں ۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں یہ محبت اس غیر اختیاری محبت میں بھی کمی زیادتی ہوتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کائنات کے ذرہ ذرہ کو فطری محبت ہے کیونکہ ہر چیز کی اصل آپ ہی ہیں ، اللہ نے سب سے پہلے اپنے نور سے آپ کی تخلیق کی ، پھر آپ کے نور سے کائنات کی تخلیق کی ، آپ کا رشتہ کائنات کی ہرچیز سے اٹوٹ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم ۔ (سورہ احزاب )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانکے لئے ان کی جان سے زیادہ قریب ہیں۔ اور فرمایا: واعلموا ان فیکم رسول اللہ (سورہ حجرات) یاد رکھو بیشک تم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور سنن کی روایت ہے : ’’انما انا لکم بمنزلۃ الوالد‘‘(ترمذی ، ابوداؤد) میں تمہارے لئے باپ کے مرتبہ میں ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے فطری واختیاری دونوں جہت سے احبیت مطلوب ہے ، اسی احبیت سے ایمان کا آغاز ہوتا ہے…. اور احبیت کی‘ حب انتہاء ہوتی ہے ، ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے ‘‘۔(ثروۃ القاری ج ۶ ص۲۸ ‘ص ۳۹)
صورت میں بے مثال تو سیرت میں لاجواب انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ
صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک میں مذکور ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناًہم سب آپ کی ہیئت کی طرح نہیں ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک کی تشریح کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بے مثالی اس طرح بیان فرمائی:
’’حدیث شریف انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ عبارت النص ہے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ جانتے تھے کہ کوئی حضور کے جیسا نہیں بلکہ زمین وآسمان کی ساری مخلوق جمع ہوکر بھی حضور کے جیسی نہیں ہوسکتی اور اس میں ہیئت کا لفظ بتارہا ہے کہ ظاہر ہو یا باطن کسی اعتبار سے کوئی برابر نہیں ہوسکتا ، بظاہر جو ہیئت نظر آرہی ہے وہ ہمارا مشاہدہ ہے ، آدمی کسی چیز کو دیکھ کر جو سمجھتا ہے اس کا حقیقت ہونا ضروری نہیں ہے ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے لباس بشر میں بھیجا ہے وہ بشر کے لباس میں ہیں تاکہ آپ انسانوں کو فائدہ پہنچائیں اور انسان آپ سے استفادہ کرے ، جیساکہ موطا امام مالک کی تخریج کردہ روایت ہے۔ عن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : انی لانسی او انسی لاسن۔ ترجمہ: حضرت مالک سے روایت ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھولتا ہوں یا بھلایا جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے نمونہ ہو۔ (مؤطا امام مالک ، کتاب السہو، باب العمل فی السہو، رقم الحدیث :۲۲۴)
عالم بشریت کو فائدہ پہنچانے کیلئے اللہ نے آپ کو بشر کے لباس میں بھیجا ہے ۔ آپ کی حقیقت کو آپ اور پروردگار ہی خوب جانتے ہیں۔
علامہ بوصیری فرماتے ہیں:
أعیی الوری فھم معناہ فلیس یری فی القرب والبعد منہ غیر منفحم
لسنا کھیئتک میں تشبیہ مرسل اور مجمل ہے کیونکہ اس میں اداۃ تشبیہ موجود ہے اور وجہ شبہ کو ذکر نہیں کیا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺکو خلاف اولیٰ چھوٹی سی چھوٹی نامناسب بات سے بھی معصوم رکھا
اس حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ نے جوشان عالی بیان کی وہ قرآن پاک کی آیت ’’ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر‘‘ کی طرف اشارہ ہے ’’ آپ پہلے اور بعد ہردَوراور ہر زمانہ میں معصوم ہیں ‘‘ ۔
مغفرت اور ذنب ان دونوں کے معنی علماء بیان کرتے ہیں کہ مغفرت کے معنی ہیں روکنا ، دور رکھنا اور ذنب سے مراد خلاف اولی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلاف اولیٰ چھوٹی سی چھوٹی نامناسب بات سے بھی معصوم رکھا ۔ مسلمان ہونے کے لئے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام گناہوں سے معصوم رکھا ہے ، بظاہر جو اختلافی بحث ہے وہ سب نزاع لفظی ہے‘‘۔
حسن خاتمہ کی اہمیت اور عقیدۂ اہل سنت کی حقانیت
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب جامع صحیح کے آخر میں کتاب التوحید قائم کرکے یہ بتارہے ہیں کہ کامیابی کا مدار حسن خاتمہ اور توحید پر ہے ، توحید ایک جامع اصطلاح ہے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تمام باتوں پر ایمان لانے کا نام توحید ہے۔
امام بخاری اس کتاب التوحید میں باطل اور گمراہ فرقوں کا رد کر رہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات متصف بہ صفات ہے اور وہ اپنی صفات میں یکتا وبے مثل ہے۔
حدیث شریف میں ہے : عن عوف بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افترقت الیھود علی احدی وسبعین فرقۃ فواحدۃ فی الجنۃ وسبعون فی النار وافترقت النصاری علی ثنتین وسبعین فرقۃ فاحدی وسبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ والذی نفس محمد بیدہ لتفترقن امتی علی ثلاث وسبعین فرقۃ فواحدۃ فی الجنۃ وثنتان وسبعون فی النار قیل یا رسول اللہ من ہم قال الجماعۃ۔(ابن ماجہ) جملہ تہتر فرقے ہیں ان میں اہل سنت والجماعت ناجی ہیں اور باقی بہتر (۷۲)فرقے گمراہ ہیں۔ ‘‘
امام بخاری کی مرکزی فکر عقیدۂ اہل سنت کی حمایت و تمسک
حضرت عمدۃ المحدثین رحمۃ اللہ علیہ اپنے درس میں احادیث شریفہ کی جامع تشریح کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کی فکرپر بھی روشنی ڈالتے اور طلبہ کی ذہنی وفکری صلاحیتوں کی تعمیر وتصحیح فرماتے۔’’امام بخاری رحمہ اللہ کو ہروقت اس بات کی فکر ہے کہ کتاب بخاری کو پڑھنے ‘ پڑھانے اور سننے سنانے والے سب نیک باعمل اور دوسروں کے لئے اسوہ بن جائیں اور ان کا دین وایمان ہمیشہ سلامت رہے ، امام بخاری نے اپنی کتاب بخاری شریف کو ختم کرنے سے پہلے دین سے نکل جانے والی قومِ مارقہ کی حدیث بیان کی ہے کہ تم قومِ مارقہ(دین سے نکل جانے والوں ) کی طرح مت بنو ، باادب رہو، اللہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بزرگان دین سے محبت رکھو ، زندگی بھر اور خاص طور پر خاتمہ کے وقت اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر رکھو، کچھ لوگ تلاوت قرآن ‘ نماز وروزہ اور بظاہر خشوع وخضوع میں سب سے زیادہ اہتمام کرنے والے نظر آتے ہیں مگر وہ شکار سے تیر نکل جانے کی طرح دین سے نکل جاتے ہیں ، ان کی تلاوت اور ان کی تقریر وخطابت وغیرہ کو امام بخاری محض ایسی آوازوں سے تعبیر کرتے ہیں جو خود ان کے حلق کے نیچے نہیں اتری ہیں۔ اور بندۂ مومن ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعاء کرتا رہے، جس کا خاتمہ توحید حقیقی اور محبت رسول پر ہوگا وہ نجات پائے گا‘‘۔ (ثروۃ القاری)
الغرض حضرت عمدۃ المحدثین اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،گونا گوں کمالات کے جامع اور متعدد خوبیوں کے حامل تھے۔حضرت نے قلمی وعلمی یادگاریں چھوڑی ہیں۔
عارف باللہ حضرت محدث دکن ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل شہرۂ آفاق کتاب ’’زجاجۃ المصابیح‘‘کا 22بائیس جلدوں میں ترجمہ مکمل ہوا۔حضرت نے جلد 9(کتاب العتق)سے جلد 22 ،ختم کتاب تک متن وحاشیہ کا نہایت ہی عمدہ وسلیس ترجمہ کیا۔
اس کے علاوہ آپ نے بخاری شریف کی شرح’’ثروۃالقاری من انوار البخاری‘‘کے نام سے تالیف کی،جس کے نو حصے اشاعت العلوم سے شائع ہوئے۔حضرت بندہ نوازگیسودرازرحمۃ اللہ علیہ کی معارف سے لبریز تفسیر’’الملتقط‘‘ کے قلمی نسخہ کی تحقیق واشاعت میں اہم رول اداکیا،نیز حضرت کئی کتابوں کے مصنف رہے۔ سینکڑوں مضامین ومقالات سپرد قرطاس کئے ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘کا عربی میں ترجمہ کیا۔علم غیب رسول اکرم ﷺپر آپ نے ایک تحقیقی کتاب ’’نور غیب ‘‘لکھی،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ایک بے مثال تحقیقی کتاب لکھی،جس کا نام’’امام اعظم امام المحدثین ‘‘رکھا۔شیخ صالح باحطاب کی عربی تالیف‘سیرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔علاوہ ازیں جامعہ نظامیہ کا علمی،دینی ادبی اور اصلاحی سالانہ مجلہ ’’انوار نظامیہ‘‘کے آپ مدیر تھے ،نیز عربی زبان کا ’’مجلۃالاضواء‘‘حضرت علیہ الرحمۃ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔آپ کی بلند پایہ شخصیت، علمی وتحقیقی خدمات پر ملک کی عظیم یونیورسٹیوں میں مختلف زبانوں میں ریسرچ اسکالرس Phdکررہے ہیں۔’’المدائح العطرۃ‘‘کے نام سے آپ کا شعری دیوان ہے۔عشق نبوی میں ڈوبا ہواآپ کا کلام آپ کے عشق ومحبت اور ذات رسالت مآب ﷺسے اٹوٹ وابستگی کی غمازی کرتاہے۔ مدینہ منورہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جب بھی حاضر ہوئے عربی میں نعت شریف منظوم کی ۔
قصیدہ بردہ کی عارفانہ شرح کو دیکھنے سے ہرقاری یہ کہے گا یہ قلم کی روشنائی سے نہیں بلکہ قلب کی روشنی سے لکھی گئی ہے۔یہ آپ کی آخری یادگارہے،علالت کے زمانہ میں بھی آپ کے رقم کردہ بلاغی وعرفانی مباحث بصارت وبصیرت کو جلا بخشتے ہیں۔
آپ نے جس طرح علوم ومعارف سے بندگان خدا کو فیضیاب کیا اسی طرح اپنے خانوادہ کو بھی علوم ومعارف سے سرفراز فرمایاہے، چنانچہ مخدومہ استاذنی ماں صاحبہ نے بھی حضرت کی زیر سرپرستی مولوی ‘عالم ‘ فاضل اور کامل الحدیث کی ڈگریاں حاصل کیں ، عثمانیہ یونیورسٹی سے شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کی عربی زبان میں خدمات پر Ph.Dکی، برسہابرس کلیۃ البنات کی صدر معلمہ رہیں اور متعدد کتابیں تالیف فرمائیں۔ حضرت کے صاحبزادہ نے بھی حفظ قرآن کی تکمیل کی اور مولوی ‘عالم ‘فاضل وکامل الحدیث تک تعلیم حاصل کی۔ سات صاحبزادیاں اور داماد صاحبان بھی عالم ‘فاضل وکامل ہیں ۔ اسی طرح نواسے ونواسیاں اورنواسہ داماد صاحبان وغیرھم سب ہی صاحبانِ علم وفضل ہیں۔ ہمہ خاندان آفتاب است۔ ’’المبطون شہید‘‘پیٹ کی بیماری سے انتقال کرنے والا شہید ہے۔ صحیح بخاری میں وارد اس حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالی نے آپ کو درجۂ شہادت عطا فرمایا ہے۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ بطفیل حبیب اکرم ﷺآپ کے درجات کو بلند فرمائے،آپ کے فیضان کو جاری رکھے،مخدومہ استاذنی ماں صاحبہ ، گرامی قدر استاذزادہ واستاذزادیوں اور جملہ اہل خاندان ووابستگان و طلباء اور اہل اسلام کو فیضان علم و معرفت سے فیضیاب فرماتا رہے۔ وصلی اللہ تعالی وسلم علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔

حضرت عمدۃ المحدثین ،ایک بلند پایہ محدث اور شارح حدیث
حضرت مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ
بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر وجامعہ انوار العلوم ابو الحسنات