علم تفسیر
الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔
اما بعد :
قرآن مجید اللہ تعالی کی صفت ذاتی اور اس کاکلام نفسی ہے اور غیر مخلوق ہے ۔
الفاظ وحروف سے مستغنی ہے لیکن اللہ تعالی نے اس کلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے الفاظ ومعنی کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ آپ اس کی تفسیر وتبیین فرمائیں ۔ ارشاد ہے :
(وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ (نحل: ۴۴)
ہم نے الذکر (قرآن مجید) کو آپ پر اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے واسطے نازل کردہ کلام (قرآن مجید )کی تفسیرفرمائیں ۔
اسی لئے وہی تفسیر معتبر ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے، اور جس کا اعتماد عربی ادب ،اس کے اصو ل وقواعد اور علوم بلاغت معانی بیان وبدیع کے ساتھ قرآن وسنت پر ہو اور اگر ایسانہ ہوتو وہ تفسیر بالرای ہے ،جو غیر معتبر اور ممنوع ہے،
جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ من تکلم فی القرآن برأیہ فأصاب فقد أخطأ ، قرآن مجید میں کوئی شخص اپنی رائے سے بولے اور صحیح بولے تب بھی اس نے غلطی کی ہے ، کیونکہ اس دروازے سے گمراہی داخل ہوجاتی ہے ،اور انسان کو پتابھی نہیں چلتا ،اسی لئے اگر کوئی شخص قرآن مجید کی آیات کے عموم وخصوص کو دیکھ کر اپنے طور پر کوئی مفہوم متعین کرتاہے تووہ گمراہی ہے۔مثلا آیت کریمہ: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ( سورہ البقرہ:۱۱۵ )مشرق اور مغر ب اللہ ہی کی ہیں پس تم جس جانب بھی رخ کرو تو ادھر اللہ کا رخ ہے ۔
اس سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نمازمیں کسی بھی طرف رخ۔ کیا جاسکتاہے تو یہ اس کی غلطی ہے ۔
اسی طرح آیت کریمہ: وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ (نسائ: ۸۹) اس سے کوئی شخص تمام مشرکین کو قتل کرناجائزہے سمجھتاہے ۔تویہ اس کی کج فہمی ہے اور بڑی غلطی ہے ۔
اسی طرح آیت کریمہ لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْا اِذَا مَااتَّقَوْا(مائدہ:۹۳) جولوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے تو ان پر ان چیزوں میں جو وہ کھائیں جب وہ تقوی اختیار کریں تو کوئی حرج نہیں ۔
اگر اس آیت سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ خوف خدا رکھنے والوں کے لئے وہ کوئی چیز بھی کھالیں حلال ہے تو اس کا اس طرح سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے ۔
محض عربی زبان کے ادیب ہوجانے سے اور مطالعہ پر اعتماد کرنے سے قرآن مجید سے مسائل حیات کا استنباط نہیں کرسکتے صحابہ کے قلوب منورتھے ،وہ زبان ادب کے ماہر اور فصیح وبلیغ تھے اس کے باوصف بہت سی آیات کے مفہوم میں ان کو اشتباہ ہوجاتا جیساکہ حاتم ابن عدی ؒ کو خیط ابیض اور خیط اسود کے مفہوم کو سمجھنے میں اشتباہ ہو گیاتھا ۔
اسی لئے علم تفسیر کی ضرورت ہے ، جس طرح قرآن مجید سے نصیحت پانا اور اس سے ہدایت کا حصول اور اس کا حفظ کرنا ہر محنت کرنے والے کیلئے آسان کردیاگیا ہے ،اسی طرح جو حضرات علوم ومعارف اور احکام ومسائل سے واقفیت اور آگاہی چاہتے ہیں اگر وہ اس کے لئے محنت کرتے ہیں تو ان کے لئے اس کو آسان کردیا جاتا ہے ۔ ارشاد ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ (قمر :۱۷)ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے،
قرآن مجید سے بحیثیت قانون حیات اور دستور زندگی مسائل کا استنباط اور فروعات کا انطباق تو اس کے لئے علم تفسیر پڑھنا ضروری ہے ،اور یہ بات مسلم ہے کہ محنت کرنے والے کے لئے کوئی علم بھی مشکل نہیں ۔
لہذا جولوگ علم تفسیر کے لئے محنت کریں گے ان کے لئے یہ علم بھی آسان ہوجائیگا ۔
قرآ ن مجید کے علوم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے جو اس کی طلب کے لئے جدو جہد کریںگے وہ اس کے علماء میں شمار کئے جائیں گے ۔
امام جلال الدین سیوطی ؒ الاتقان میں لکھتے ہیں ، کہ علم تفسیر کیلئے علوم عربیہ اورعلوم بلاغت کے علاوہ (۳۰۰)علوم سے واقفیت کی ضرورت ہے ۔
علم تفسیر کی تعریف :
تفسیرجوباب تفعیل سے مصدر ہے، یہ فسر سے ماخوذ ہے، اور مجرد میں باب نصر اور ضرب سے ہے، اس کے معنی لغت میں ہیں :کشف وبیان، کسی چیز کو کھولنا واضح کرنا، اور اصطلاح میں تفسیر سے مراد وہ علم جس میں نظم قرآن اور اسکے معانی ومطالب سے بحث کی جاتی ہے ،اور تفسیر کو تاویل بھی کہاجاتاہے، اور بعض علماء کرام دونوں میں فرق کرتے ہیں ۔
تاویل یہ’’ اَوْلٌ‘‘ سے ماخوذ ہے اس کے معنی لغت میں رجوع کرنا اور اصطلاح میں ایک سے زائد محتملات کو سباق وسیاق یا کسی دلیل سے ترجیح دینا ۔
امام ابوعبیدہ کہتے ہیںکہ تفسیر وتاویل میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں کہ تفسیر وتاویل الگ الگ ہیں ۔
علماء کرام دونوں میںجو فرق لکھتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :
(۱) تفسیرمفردات کے لئے ہیں یعنی ایک ایک لفظ کی الگ الگ تشریح تاویل مجموعی پورے جملے کی تشریح ۔
(۲) تفسیرمیں معنی کا تعین قطعی ہوتا ہے تاویل میں متعدد محتملات وتشریحات میں سے کسی ایک کو دلیل سے ترجیح دیناہے۔
(۳) تفسیر کا تعلق روایت سے ہے یعنی تفسیر ماثور ہوتی ہے اور تاویل کا تعلق ان واردات واشارات سے ہے جو سالکین وعارفین کے قلوب پر وارد ہیں ۔
(۴) تفسیرالفاظ اور ان کے معانی ومفاہم بیان کرنا اورتاویل اس مفہوم سے نتائج اخذ کرنا۔
(۵) تفسیرظاہری معنی کو بیان کرنا اورتاویل اصل مرادکی تشریح کرنا ۔
علم تفسیر کا موضوع :
علم تفسیر کا موضوع کلام اللہ تعالی ہے ۔
علم تفسیر کی غرض وغایت:
معانی قرآن کو معلوم کرکے اس پر عمل کرنا تاکہ سعادت دارین حاصل ہو ۔
علم تفسیر کا مرتبہ:
علم تفسیر، علوم کا سردار ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے کلام کی مراد سے بحث کیجاتی ۔حدیث شریف میں ہے ۔ فضل کلام اللہ علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ۔ (ترمذی ) اللہ کے کلام کی فضیلت مابقی کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے ۔
علم تفسیر کافائدہ :
علم تفسیر سے قرآن مجید کے معانی ومطالب اور احکام شریعت کے علاوہ انسانی تمدن وترقی کے بے شمار علوم اور کائنات کے حقائق ودقائق اور اسرار معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے اس میںسارے علوم وفنون ودیعت کئے ہیں ہر نئے دور کے ساتھ ان کا انکشا ف ہوجاتا ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے: مَافَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیئٍ(انعام: ۳۸)ہم نے الکتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں کی ہے اور ارشاد ہے وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُبِیْنْ (انعام: ۵۹)اور نہ کوئی دانہ زمین کی تاریکیوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک مگر وہ کتاب مبین میںہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کا تعارف سب سے پہلے الکتاب سے فرمایا ہے ،کتاب وہ دفتر ہے جس میں کوئی چیزلکھی اور جمع کی جاتی ہے چونکہ یہ کتاب ہدایت ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس میںتمام علوم وفنون کو جمع کردیا ہے ۔
چنانچہ امام جلا ل الدین سیوطی ؒنے اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں نقل کیا ہے کہ قرآن مجید کے حروف میں (۳۰۰۰۰۰)تین لاکھ علوم ہیں اور اسکی نظم وترکیب اور جملوں میں بے حساب ہیں جس کا اندازہ کرنا دشوار ہے یہ قرآن مجید کا اعجازہے کہ صرف (۶۶۶۶)آیات کریمہ میں خالق سے مخلوق تک ساری چھوٹی بڑی چیزیں بیان کردی گئی ہیں، اور قرآن مجید معجز کلام ہے ۔
کائنات کی ساری طاقت ملکر اس جیسی ایک چھوٹی سورت بھی نہیں بناسکتی قرآن مجید نے اپنے روز اول سے چیالنج کیا ،وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہِ وَادْعُوْا شُہَدَائَ کُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنْ (بقرہ:۲۳) اگر تم اس کے کلام الہی ہونے میں کسی شک میں ہوتو اپنے تمام شہداء کو بلالو اور اس جیسی ایک سورت بناکر لاؤ ،اور یہ بھی اعلان کیا ہے وَلَنْ تَفْعَلُوْا اور تم ہرگزایسی ایک چھوٹی سورت بھی نہیں بناسکتے ۔
اس کا اعجاز اس قدر ظاہر وباہر ہے کہ دنیا کے فصحاء وبلغاء اور دانشور وں نے جب بھی اس کے لئے کوشش کی تو بیک زبان سب نے اقرار کیا ’’ مَاہٰذَا کَلَامُ الْبَشَرِ ‘‘ یہ کسی انسان کا کلام نہیں علماء کرام نے ا س کے وجوہ اعجازکوشمار کرنے کی کوشش کی ہے اور قرآن مجید کے اعجاز کوچار عنوانات پر تقسیم کیاجاسکتاہے ۔
(۱) الفاظ کا اعجاز (۲) ترکیب کا اعجاز (۳) اسلوب کا اعجاز(۴)نظم کا اعجاز ۔
اورعلامہ قرطبی نے بہ اعتبار نظم ومعانی دس وجوہ بیان کئے ہیں۔
(۱)الفاظ کا اعجاز ہر لفظ اپنی جگہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اس قدر اٹل ہے کہ اس جگہ اس کے کسی بھی مترادف کو رکھا جائے تو معنی کی گہرائی ختم ہوجاتی ہے ۔
(۲) صوتی حلاوت ۔
(۳) سلاست اور سبک ادائی۔
(۴) ترکیبی حلاوت۔
(۵) کلا م کی شوکت وبلندی ۔
(۶) اختصار وایجاز میں معانی کا سمندر۔
(۷)بہ اعتبار معانی ابتداء سے انتہائی تک ہر آیت دوسری آیت سے مربوط ۔
(۸)ہر آیت کااپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے مستقل ہونا ۔
(۹) مغیبات کو بیان کرنا : امی ہو کر گزشتہ واقعات کو بیان کرنااور آئندہ کی خبریں دینا۔
(۱۰) خالق ومخلوق کی ذات وصفات اور کائنات کے اسرار اور دارین کی سعادت کے تمام مضامین اور جملہ امور جوناقابل تنسیخ ہیں اس میں ودیعت کئے گئے ہیں ۔
اسی لئے ہر جگہ قرآن مجید میں سب سے زیادہ غور کیا گیا مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام اقوام عالم اہل کتاب یہود ونصاری اور ملحدین ومشرکین بھی دنیا میںہمیشہ اس میں غور وفکرکرتے رہے ہیںاور اس میں ودیعت کردہ علوم سے استفادہ کرتے رہے ہیں ۔
اور یہ بھی قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ اس کائنات میں سب سے زیادہ اس کتاب حکیم کو پڑھاگیا اور پڑھاجاتا ہے بڑے سے بڑے شہر اور چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں شاہی محلات سے لیکر ایک چھوٹی جھونپڑی میں بھی اس کو پڑھاجاتاہے اور اس کی تلاوت ہو تی ہے اور اسکو سمجھنے اس کے علوم کو جاننے اور اس سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی لئے سب سے زیادہ اس کی تفسیر یں لکھی گئی ہیں اور ہر زبان میں لکھی گئی ہے اور ہرپہلو سے لکھی گئی ہیں۔
اب تک جو تفسیر ی کتابیں لکھی گئی ہیں ہم ان کو ان موضوعات کے اعتبار سے درج ذیل خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
(۱) تفسیر معانی (۲)تفسیر حقائق ودقائق
(۳) تفسیر اشارات وحکم (۴)تفسیر الہامی یعنی واردات ووجدانیات
(۵) تفسیر احکام (۶) تفسیر اعراب
(۷) تفسیر مفردات (۸) تفسیر بلاغت
(۹) تفسیر وجوہ قراء ات (۱۰) تفسیر نظم قرآن
(۱۱) تفسیر عددی (۱۲) تفسیر موضوعات ۔
یہ قرآن مجید کی ہی خصوصیت ہے کہ آج تک اس کی جو بے شمار تفسیریں کی گئی ہیں، وہ سب ان علوم ومعارف کی نسبت سے جو اس میں ودیعت کئے گئے ہیں ،ایک قطرہ کی حیثیت ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آج تک ہر دور میں مفسرین کرام کی قابل لحاظ تعدادرہی ہے، صحابہ ؓ میں سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ صدر المفسرین ہیں ودیگر صحابہ میں سیدنا ابوبکر ؓ ،سیدنا عمر ؓ ،سیدنا عثمان ؓ،اور رئیس المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ ، سیدناعبد اللہ بن مسعود ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ ، حضرت زید بن ــثابت ؓ، حضرت معاذبن جبل ؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ،حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ، حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہؓ، حضرت جابر ؓ،حضرت ابوموسی اشعریؓ، حضرت ابوالدرداء ؓ،حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ، تابعین میں حضرت مجاہدؓ،حضرت سعید بن جبیر ؓ، حضرت عکرمہ ؓ، حضرت طاؤوس ؓ، حضرت عطاء بن رباح ؓ، حضرت سعید بن مسیب ؓ، حضرت محمد بن سیرین ؓ، حضرت زید بن اسلم ؓ، حضرت ابوالعالیہ رفیع ؓ، حضرت عروہ بن زبیر ؓ، حضرت قتادہ ؓ، حضرت محمد بن کعب قرظی ؓ، حضرت علقمہ ؓ، حضرت اسود ، حضرت ابو اسماعیل مروہ ہمدانی ، حضرت نافع ؓ، حضرت شعبی ؓ، حضرت عبدالملک بن جریج ؓ،حضرت ضحاک ؓ، اور تبع تابعین میں حضرت سدی کبیر ؓ، حضرت سدی صغیر ؓ، حضرت مقاتل ؓ ،حضرت ربیع بن انس کبری ؓ، حضرت عطیہ عوفی ؓ، حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم عدوی ؓ، حضرت ابوالنصر محمد بن سائب کلبی ۔
متاخرین میں مشہور مفسرین میں سے عماد الدین ابوالفدا ء اسماعیل بن کثیر ؓ،حضرت امام فخر الدین رازی ؓ، حضرت قاضی ابوالسعود عمادی حنفی ،ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی ؓعلامہ آلوسی صاحب روح المعانی علامہ اسماعیل حقی صاحب روح البیان،بحر العلوم ابواللیث سمر قند ی،ابوجعفر طبری علامہ نظام الدین حسن قمی نیشاپوری وغیرہ ہیں۔
اوردرسیاتی تفاسیر کے مؤلفین میں علامہ زمحشری،علامہ قاضی بیضاوی ، علامہ عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی ، امام جلال الدین سیوطی،امام جلال الدین محلی ، وغیرہ ہیں ۔
اور بلاد ہندوستان قدیم سے علماء کی سرزمین ہے علم تفسیر میں یہاں بھی عربی ،فارسی، اردو، اور دیگر زبانوںمیں قابل لحاظ کام ہوا ہے ،علماء ہند کی بزبان عربی مشہور تفاسیر میں سے چند درجہ ذیل ہیں ۔
(۱)تفسیر مہائمی (۲) تفسیر مظہری
( ۳) تفسیر سورہ والتین ( ۴) تفسیر سورہ قریش تالیف علامہ سید ابراہیم ادیب
(۵)نثرالمرجان فی رسم نظم القرآن ۷مجلدات مطبوعہ اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ۔
(۶)تفسیرات احمدیہ ملا جیون ۔
اردو اور فارسی زبان میں لکھی گئی تفسیریں اس کے علاوہ ہیں ۔
علماء جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں مفسرین کی قابل لحاظ تعداد رہی ہے ،مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے چند معرو ف مفسرین کے اسمائے گرامی کا ذکر کیاجائے اگرچہ کہ بعض علماء جامعہ نظامیہ سے تحصیل علوم نہیں کئے ہیں مگر شیخ الاسلام حضرت عارف باللہ فضیلت جنگ مولانا محمد انوار اللہ فاروقی مؤسس جامعہ نظامیہ کے حکم سے ان کی تفسیر ی کتابیں مجلس اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ سے شائع کی گئی ہیں۔
(۱)حضرت علامہ سید ابراہیم ادیب صاحب ؒسورۃ والتین عربی مطبوعہ مجلس اشاعۃ العلوم ۔
(۲) حضرت فضیلۃ الشیخ مفتی رحیم الدین صاحب ؒ شیخ التفسیر جامعہ ۔
(۳) حضرت شیخ سید محمد بادشاہ حسینی صاحب ؒتکملہ تفسیر قادری ۔
(۴)مولانا قاری عبدالباری صاحب ؒ ترجمہ وتفسیر قرآن ۔
(۵)حضرت مولانا عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ صاحبؒ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ تفسیر قدیری ۔
(۶)حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ؒ شیخ التفسیر جامعہ ۔
(۷)صدرالشیوخ علامہ سید طاہر رضوی شیخ التفسیر ؒ
(۸)حضرت شیخ سید قطب الدین حسینی صابریؒ امیر جامعہ صاحب تفسیر قطبی
(۹)علامہ غوث نائطی ؒکی نثر المرجان فی رسم نظم القرآن ۷مجلدات
(۱۰) تفسیر روح الایمان ۔ پارہ اول
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ والہ وصحبہ ومحبیہ واتباعہم اجمعین ۔
ززز