مسائل معاصرۃ اور فقہ حنفی

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔ اما بعد :

’’مسائل معاصرۃ اور فقہ حنفی‘‘ اہم موضوع ہے۔ اس سے واقفیت دور حاضر کی شدید ضرورت ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے (و ماأرسلناک اِلا کافۃ للناس بشیرًا و نذیرًا )
اسلام در حقیقت دین فطرت، کمال تمدن کا نام ہے، اور وہ ایک شامل و کامل دین ہے،ہر زبان و مکان میں صالح للعمل ہے،دنیا جہاں کا کوئی مسئلہ اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔
زمانہ میں ’’العالم حادث‘‘ کے مصداق تغیرات ہیں اور ہر وقت اس میں تجدد ہے۔
عصر حاضر علوم و معارف صناعات و اختراعات اور سائنسی ترقی کا دور ہے۔ اور شریعت اسلامیہ بھی ایک آفاقی شریعت ہے فقہ اسلام زمانہ گذشتہ پر ختم نہیں ہوئی بلکہ زمانہ حال و مستقبل کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر شامل و محیط ہے۔ علماء سلف نے دنیا کے تمام امور سے متعلق دلائل تفصیلیہ سے احکام کا جو ذخیرہ فراہم کیا ہے۔ ہزاروں سال کے اس انسانی دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ’’اِن المتقدم لم یترک للمتأخرین شیئًًا‘‘ کے مصداق متقدمین نے تا ابد مسائل جدیدہ کے حل کیلئے اصول و قواعد مدون کئے ہیں جس میں کوئی بات تشنہ نہیں ہے۔ حسب ضرورت ان کو صرف استعمال کرنا اور ان سے استنباط کرنا ہے۔
حضور علیہ و آلہ الصلوۃ و السلام الی یوم القیامۃ معلم بناکر مبعوث ہوئے ہیں اس لئے فقہ اسلامی کا کام بھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ وہ الی یوم القیامۃ ہے۔
زمانہ میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے بڑے کام کیلئے فقہ اسلامی اپنے فیصلے سناتی ہے لیکن زمانہ جیسے جیسے دوڑتا ہے فقہ اسلامی بھی اس کے ساتھ مرافقت کرتی ہے۔ اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا ہے اور ائمہ اربعہ کے بعد اس بارہ سو سال سے زائد عرصہ میں کوئی متفق علیہ مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا کسی بھی زمانہ میں کسی بھی نئے مسئلہ کا حل تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ ہر مسئلہ کا جواب حاضر ہے۔
حاضرین کرام جدید پیدا ہونے والے مسئلہ کے حل کے جو اصول و قواعد ہیں اس کو پیش کرنے سے پہلے نہایت اہم بات آپ یاد رکھیں۔
فقہ اسلامی کی دو ایسی خصوصیات ہیں جو دنیا کے ما بقی تمام مذاہب و ادیان سے فقہ اسلامی کو ممتاز کرتی ہیں اور اس کی وجہ سے فقہ اسلامی ہرزمانہ و مکان کے لئے یکساں مفید ہے:
(۱) ثبات (۲) مرونت
ثبات کا مطلب یہ کہ وہ نا قابل تنسیخ ہے۔ مرونت یعنی اس کا لچکدار ہونا ہے۔ یہ فقہ ہر زمانہ کے ساتھ برابر چلتی رہتی ہے۔ اور یہ ایک آفاقی قانون ہے اس کے حدود اربعہ سے زمین و آسمان کا کوئی حصہ باہر نہیں انسان چاند پہنچا۔ خلائی راکٹوں میں سوار ہوکر کئی کئی ہفتے زمین و آسمان کے بیچ محض فضاء میں سکونت اختیار کی۔ ٹی وی، انٹر نیٹ کے ذریعہ آن واحد میں دنیا کے کونے کونے میں اپنی آواز اپنی فوٹو اپنے حرکات و سکنات کو روانہ کر رہا ہے۔
چند گھنٹوں میں ساری زمین پر اوپر نیچے کی ہر سطح سے گزر رہا ہے۔ اس سائینسی ترقیات کی وجہ سے کتنے نئے مسائل پیدا ہوئے بلاد عربیہ سے ہندوستان پہنچنے والے کے لئے تھوڑی ہی دیر میں عصر کے بعد سورج غروب سے پہلے پھر ظہر کا وقت آجاتا ہے۔ پہلی تاریخ کو نکل کر سفر کرنے والے آدمی کو ابھی دو چار گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مہینہ پلٹ جاتا ہے۔ پھر پلٹ کر ۲۹ تاریخ آجاتی ہے۔
معاملات کی دنیا میں کدھر سے کدھر انقلاب آگیا اک منٹ بھی نہیں گزرتا کہ ہندوستان میں رہنے والا تاجر ہزاروں میل دور رہنے والے امریکن تاجر سے کاروبار کرلیتا ہے۔ غرضکہ معاملات، عبادات، سیاست ہر موڑ پر نئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ خلائی راکٹ میں نماز، ہوائی جہاز میں نماز تھوڑی دیر میں گزرے ہوئے وقت کا پھر آجانا مقام کی تبدیلی کے ساتھ تاریخوں کا واپس ہونا اور اس میں روزے اور عید کے مسائل، مال پر قبضہ کئے بغیر فون پر کاروبار کرنا، زکوۃ کیلئے قیمتوں کا بے حساب اتار چڑھاؤ بیمہ اور شیرز کی مختلف صورتیں، بینک کا نظام اور کرنسیوں کا اتار چڑھاؤ اور بے شمار ملکی تقالید اور نت نئے رسم و رواج، ہر وقت بدلتے فیشن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں مسائل، مادہ تولید کے ذریعہ جانوروں اور انسانوں کی تخلیق غرضکہ ہر جگہ تجدد کی کار فرمائی ہے۔
ان مسائل کے حل کے لئے مجتہد مطلق کا پیدا ہونا دشوار ضرور ہے مگر اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہے۔ اجتہاد فی المذہب یا اس سے نیچے کے کسی بھی درجہ میں اجتہاد کی صورتیں موجود ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ یہ اجتہاد آسان اور موفر ہے۔ کیونکہ اس کے وسائل پہلے سے زیادہ فراہم ہیں۔ تمام احادیث شریفہ مدون ہیں، اصول فقہ مدون ہیں، لغت اور اس کی قوامیں و ڈکشنریاں موجود ہیں ہر کتاب ہر جگہ فراہم ہے۔
فقہ ایک بحر زخار ہے جس کی گہرائی و گیرائی اللہ تعالی ہی جانتا ہے صرف غوطہ زنی کی ضرورت ہے۔ اس سے موتی مونگے وہی حاصل کرسکتا ہے جو غوطہ زنی کرتا ہے۔ علم فقہ کے شہر میں داخلہ کے لئے اس کے خاص دروازے ہیں اور اس کے سمندر میں غوطہ زنی کے اسباب ہیں جو اس کے اصول کہلاتے ہے، اور یہ دس ہیں (تِلْکَ عَشَرَۃ ٌ کَامِلَۃٌ) یہ جملہ دس اصول اجناس کے طور پر ہیں اور ان میں ہر ایک کے بیس انواع ہیں چنانچہ ان دس اصول کو بیس میں ضرب دینے سے دوسو ہوجاتے ہیں اور یہ علوم عربیہ کے قواعد اور فصاحت و بلاغت کے اصول اور فقہ کی مبادیات کے علاوہ ہیں۔
یہ دس اصول بنیاد ہیں فقہ کی ساری عمارت اسی پر قائم ہے:
قرآن مجید:
قرآن مجید کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئے ہیں اور قطعی الثبوت ہیں، اللہ تعالی نے اس میں ہر چھوٹی بڑی چیز قانون کی زبان میں بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہے:
(وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَيْئٍ)(سورہ نحل: آیت۸۹)
(ولا رطب و لا یابس اِلا في کتاب مبین) (سورہ انعام :آیت ۵۹)
سنت مطہرہ:
اس کی حجیت قرآن کریم سے ثابت ہے:و ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا۔ (سور ہ حشر :آیت ۷) حدیث شریف میں قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت دونوں موجود ہیں۔ ثبوت عقیدہ کے لئے قطعی الثبوت ہونا اور وجوب عمل کے لئے ظنی الثبوت اور رجحان ظن ہونا بھی کافی ہے۔ دو گواہوں سے قاضی کا فیصلہ، استقبال قبلہ میں تحری سے نماز پڑھنا یہ سب رجحان ظنی ہی سے ہے۔
شریعت کے ہر حکم و مسئلہ میں قطعی الثبوت کا التزام ایک حرج ہے اور شریعت میں حرج نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَمَاجَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ۔(سورہ حج: آیت ۷۸) بہر حال حدیث شریف کا انکار قرآن مجید کا انکار ہے۔
اور ان دو دلیلوں سے اور آٹھ دلائل ہیں:
اجماع امت:
أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْکُمْ۔(سورہ نسائ: آیت ۵۰) سے اجماع امت کا ثبوت ملتا ہے۔ اور اس جیسی بیشتر آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ ہیں اور حدیث لا تجتمع أمتي علی الضلالۃ یعنی میری امت گمراہ ہر گز نہیں ہوگی، اس سے اجماع امت واضح ثبوت ہے۔
قیاس:
علت جامعہ کی بناء پر غیر منصوص علیہ پر منصوص علیہ کا حکم لگانا قیاس کہلاتا ہے۔ جب دونوں میں ایک ہی علت ہے تو دونوں کا حکم بھی ایک ہوگا۔
قرآن کریم کی آیت:فَاعْتَبِرُوْا یَا أُولِی الْأَبْصَارْ۔(سورہ حشر: آیت ۲) میں اعتبار قیاس ہی کا نام ہے،:فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فُرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہَ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرُ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلَا۔(سورہ نساء :آیت ۵۹) اس آیت میں ’’رد‘‘ کا حکم ہے اور یہ ’’رد‘‘ عمل قیاس ہے۔
امت کی تعلیم کے لئے حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے قیاس فرمایا: قبیلہ خثعم کی ایک عورت حضور علیہ و آلہ الصلاۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور دریافت کی میرے والد پر حج فرض ہوگیا وہ بہت بوڑھے ہیں ،حج نہیں کرسکتے ،کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں، تو آپ نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارے والد پر قرضہ ہوتا اور تم اس کو ادا کردیتی ہو تو ادا ہوجائیگا یا نہیں، تو وہ عرض کی ہاں، تو آپ نے فرمایا: اللہ کا قرض تو اس سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کو ادا کیا جائے۔ یہ قیاس ہی تو ہے۔
صحابہ بھی قیاس کئے ہیں، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی استحقاق خلافت کے لئے صحابہ نے قیاس کیا چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے جب ہمارے دین یعنی نماز کے لئے ان سے راضی ہوئے ہیں تو ہم اپنی دنیا کے لئے ان سے راضی کیوں نہ ہوں گے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یعرف الحق بالمقایسۃ عند ذوي الألباب، عقلمندوں کے پاس قیاس کے ذریعہ حق کی معرفت ہوتی ہے قیاس بداہت عقل کا تقاضہ ہے کیونکہ اللہ تعالی دنیا کے تمام امور اسباب کے تحت رکھے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی استثناء آئے۔
مثلاً شراب حرام ہے، اس کی حرمت نشہ کی وجہ سے ہے تو یہ کیسے جائز ہوگا کہ صرف شراب حرام ہو اور دوسری نشیلی مشروبات حلال ہوں۔ ظاہر ہے نشہ کی وجہ سے ہر نشہ کی چیز حرام ہو جائیگی۔ اگر چیکہ اس کا ذکر قرآن میں نہ ہو۔
قیاس کے علاوہ اور ۶ ادلہ ہیں وہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہیں:
استحسان، مصلحت مرسلہ، عرف عام، استصحاب اصل، سابقہ شریعت،
کسی صحابی کا مذہب۔ یہ جملہ دس ہوئے۔
استحسان:
در اصل یہ قیاس خفی ہے کسی قیاس سے ثابت ہونے والے کسی حکم میں سے کسی ایک جزئیہ کو الگ کیا جائے۔ مثلاً بائع اور مشتری قبضہ سے پہلے کسی چیز کی قیمت میں اختلاف کریں۔ بائع ۲۰ روپئے کہتا ہے اور مشتری اس کا انکار کرکے۱۵ کہتا ہے۔ اس میں بظاہر بائع مدعی ہے اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو مشتری جو بظاہر مدعی علیہ معلوم ہوتا ہے قسم کھائیگا۔ لیکن امام اعظم اور حضرت امام شافعی دونوں حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں ایک دوسری جہت بھی ہے وہ یہ کہ دونوں مدعی بھی ہیں اور دونوں مدعا علیہ بھی اس لئے دونوں سے حلف لیں گے۔ اس کے بعد مشتری کو اختیار ہوگا کہ بائع کی بتائی ہوئی قیمت میں اس کولے لے ورنہ بیع کو فسخ کردیا جائیگا۔
احناف اور مالکیہ استحسان کو اختیار کئے ہوئے ہیں، شافعیہ استحسان کا انکار کرنے کے باوجود بعض جگہ استحسان پر عمل کرتے ہیں استحسان شریعت کے مقصد کو زیادہ پورا کرنے والا ہے اس لئے قیاس کے مقابلہ میں استحسان کو ترجیح دیں گے۔
المصلحۃ المرسلۃ:
مصلحت مرسلہ سے مراد کوئی مصلحت جس کے اعتبار کرنے اور نہ کرنے کے متعلق کوئی شرعی دلیل نہ ہو عہد صحابہ میں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں مثلاً جیل خانے بنانا، سکوں کا ڈھالنا، پارک اور چمن بندی کرنا، حسب ضرورت شاہراہوں کی توسیع اور سنگ میل قائم کرنا۔
مصالح مرسلہ کا عبادات و عقائد میں استعمال درست نہیں۔ البتہ معاملات اور عادات و تقالید میں مصالح مرسلہ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
کیونکہ معاملات و عادات قابل تغیر و ترقی پذیر ہیں جو بدلتے رہتے ہیں۔ زمان و مکان کے بدلنے سے مصالح مرسلہ میں بھی تعیرات بکثرت ہوتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے عقل سلیم کے لئے بڑی گنجائش رکھی ہے اس سے آپ اپنے سینکڑوں مسائل حل کرسکتے ہیں۔
مصلحت مرسلہ کیلئے شرط یہ ہے کہ اس کا کسی نص عام یا خاص سے یا کسی منصوص علیہ جزئیہ سے تعارض نہ ہو اور اجماع سے ثابت شدہ مسئلہ کے خلاف نہ ہو اور مصلحت حقیقی ہو محض خیال نہ ہو یعنی واقعی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو یا کوئی مضرت دفع ہو (۲) اور وہ مصلحت شخصی نہ ہو بلکہ عمومی ہو، یعنی کسی ایک شخص مثلاً حاکم یا امیر کوہی اس کا فائدہ ہونے والا نہ ہو۔
کیونکہ ان شروط کے ساتھ یہ مصلحت شارع کے مقاصد کو پورا کرتی ہیں کیونکہ شریعت کا مقصد و مآل جلب منفعت اور دفع مضرت ہے۔
عرف:
حنفیہ کے پاس عرف دلائل شرعیہ میں سے اہم دلیل ہے اس کے اعتبار و ثبوت کی دلیل ’’ما راٰہ المسلمون حسنًا فہو عند اللہ حسن، و ماراٰہ المسلمون قبیحًا فہو عند اللہ قبیح‘‘ مسلمان جس کو اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالی کے پاس اچھا ہے اور جس کو برا سمجھیں وہ اللہ تعالی کے پاس برا ہے۔ جس چیز کیلئے شریعت میں کوئی ضابطہ نہ ہو تو عرف اس کے لئے ضابطہ ہے۔ بعض دفعہ قیاس پر عرف کو مقدم کرتے ہیں عرف کے بارے میں قاعدہ ہے ان العرف لیس بقاض علی النص و لکنہ مقدم علی القیاس۔
حنفیہ کے پاس دوسرے ائمہ کے مقابل میں وسعت بہت ہے۔ عرف کی دوقسمیں ہیں:
(۱) عرف صحیح: جو دلیل شرعی کے خلاف نہ ہو یعنی کسی واجب کو باطل نہ کرے اور نہ کسی حرام کو حلال کرے۔
(۲)عرف فاسد: جو دلیل شرعی کے خلاف ہو جو واجب کو باطل اور کسی حرام کو حلال کرے، مثلا جوے کا رواج اگر عام ہوجائے یا عورتوں کا زینت اور بے پردگی کے ساتھ گھومنا عام ہوجائے اور بہت سے منکرات جو آج تقاریب و غیر تقاریب میں عام ہوگئے ہیں یہ ناجائز ہی رہیں گے، کیونکہ یہ تمام عرف دلیل شرعی کے خلاف ہیں، اسی طرح بیوگان سے شادی کرنا عرف میں نا پسندیدہ ہے لیکن غیر شرعی عرف کی وجہ سے حالت نشہ میں ہونے والی طلاق کے عدم وقوع کو اختیار نہیں کیا جائیگا۔ بلکہ طلاق واقع ہوجائیگی۔
و نیز گھریلو کام کاج اور اس طرح دیگر امور یہ سب عرف کے تحت آتے ہیں اس لئے قابل عمل ہوں گے۔
عرف کیلئے شریعت میں ایک اور قاعدہ ہے المعروف کا المشروط یعنی کسی کام کے معاہدہ کرتے وقت اس سے متعلق عرف کا جو رواج ہے وہ سب اس معاہدہ میں شامل سمجھا جائیگا۔ اگرچیکہ اس کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔
استصحاب الاصل:
سابقہ حالت پر جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو حکم لگانا استصحاب حال کہلاتا ہے اسی بناء پر قبضہ، دلیل ملک سمجھا جاتا ہے جب تک اس کے خلاف دوسری دلیل قائم نہ ہو۔
سابقہ شریعت کا غیر منسوخ حکم:
قرآن و حدیث میں سابقہ شریعت کا کوئی حکم مذکور ہو اور اس کے رفع و نسخ کا حکم ہو تو اس کو چھوڑدیں گے ورنہ وہ قابل عمل ہوسکتا ہے، مثلا: مسلم ذمی کے بدلے اور عورت مرد کے بدلے قتل کی جائیگی کیونکہ قرآن مجید میں ہے: (و کتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس و العین بالعین) (سورہ مائدہ: ۴۵) اس آیت شریفہ میں یہودیوں پر قائم حکم قصاص کو بیان کیا گیا ہے چونکہ اس کے نسخ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس لئے شریعت محمدی میں بھی یہ حکم نافذ ہوگا۔
مذہب صحابی:
سنت خلفاء راشدین کو اختیار کرنے میں تمام ائمہ متفق ہیں البتہ دیگر اقوال سے متعلق اختلاف ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ قول صحابی کے ہوتے ہوئے قیاس کو اختیار نہیں کرتے ’’یأخذ من شاء من الصحابۃ و یدع من شاء و لا یخرج من قولہم اِلی غیرہم‘‘۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس قول صحابی اگر ان کے اجتہاد سے ہے تو وہ حجت نہیں ہے۔ اس سے امام صاحب کی شان میں یا مذہب حنفی پر زبان درازی کرنے والے حضرات غور کریں دنیا میں مذہب حنفی سے بڑھ کر حدیث شریف پر عمل کرنے والا کوئی مذہب نہیں۔ عربی زبان میں ایک لفظ کے کئی معانی ہوتے ہیں، اس لئے ایک لفظ کی کئی دلالتیں ہوتی ہیں:
(۱) دلالت عبارت (۲) دلالت اشارت (۳) دلالت نص (۴) دلالت اقتضاء ۔
ان مختلف دلالتوں کی وجہ سے صرف ایک حرف سے کئی مسائل مستنبط ہوتے ہیں اور یہ صرف فقہاء کی شان ہے۔ اس کی مثال پیش کی جاتی ہے:
(وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ) بچہ کی ماں کا نان و نفقہ بچے کے باپ کے ذمہ ہے اور مولود میں ایک حرف ’’ل‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے کیونکہ بچے کو ’’المولود لہ‘‘ کہا گیا۔ یعنی باپ کا بیٹا کہا گیا۔
اور اسی حرف ’’ل‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ باپ اگر محتاج ہو تو وہ حسب ضرورت بیٹے کے پیسوں میں سے لے سکتا ہے، کیونکہ بیٹا باپ ہی کا ہے اور اس لئے بیٹے کا مال بھی باپ کا ہوگا ’’انت و مالک لأبیک‘‘ حدیث شریف موجود ہے۔
صرف ایک ہی حرف ’’ل‘‘ سے کتنے احکام و مسائل نکلتے ہیں۔
بہر حال فقہ اسلامی کی بنیاد اور شرعی و ثائق کتاب و سنت ہی ہیں جو ایک حرف یا ایک لفظ کی تبدیلی کے بغیر مکمل محفوظ ہیں۔ پھر یہ فقہ اسلامی ہر زمانہ کے لئے یکساں مفید ہے کیونکہ یہ نا قابل تنسیخ ہونے کے ساتھ لچکدار بھی ہے، مثلا امور سیاسی جو تیزی سے تغیر اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں اس لئے شریعت میں اس کے لئے بڑی لچک رکھی گئی ہے اس کو صرف ایک قالب میں تنگ نہیں کیا گیا۔
چنانچہ خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ ہے شریعت خلیفہ کے صفات کا تعین کرتی ہے اور اس کے انتخاب کو مسلمانوں کا فرض قرار دیتی ہے۔ اس کے انتخاب کا طریقہ احوال و ظروف کے بدلنے کے ساتھ بدل سکتا ہے عام ووٹنگ ہو یا مجلس شوری کے ذریعہ انتخاب ہو یا کسی کو نامزد کردیا جائے۔ کوئی بھی طریقہ اختیار کریں غیر شرعی نہیں کہلائیگا۔
اسی طرح معاملات کے احکام میں معاملات کے تمام احکامات حکمت پر مبنی ہیں۔ اور اسی حکمت کو علت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی معاملہ واضح نہیں ہے، تو اس کی علت پر غور کرکے حکم لگایا جائیگا اور فقہ حنفی میں خاص طور پر معاملات کے اندر مصالح کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اسی لئے اس میں بہت تیسیر و سہولت ہے اور یہ اسلامی دنیا کی سب سے زیادہ وسیع تر فقہ بن گئی ہے۔
بہر حال فقہ اسلامی کے چند مبادی ہیں معاملات و عبادات میں منجملہ مبادی کے یہ ہے الأصل في الأشیاء الاِباحۃ کے اہم مبدأ ’’الاِباحۃ‘‘ یعنی کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ سب انسان کے لئے ہی ہے الا یہ کہ کسی نص کے ذریعہ کسی کو حرام قرار دیا جائے۔
(سخر لکم ما في السمٰوات و ما في الأرض) (جاثیہ: ۱۳)
(قل من حرم زینۃ اللہ التي أخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق) (سورہ اعراف :۳۲)
(۱) مثلاً تدخین یعنی سگریٹ نوشی الأصل في الأشیاء الاِباحۃ اشیاء میں اصل اباحت ہے اس کے تحت لوگ پیتے تھے لیکن اب جبکہ اہل خبرہ اور ماہرین اس کے ضرر کو ثابت کر رہے ہیں تو و یحرم علیہم الخبائث کے تحت حرام یا کم از کم مکروہ ضرور ہوگا۔
(۲) الضرر یزال شرعًا: شریعت میں کسی کو ضرر پہنچانا نہیں ہے ضرر کو دور کردیا جائیگا اسی لئے خریدو فروخت میں خیار شرط، خیار عیب،، خیار رؤیت کو جائز رکھا گیا ہے۔
(۳) الضرر لا یزال بالضرر، ضرر کو ضرر سے دفع نہیں کیا جائیگا، اسی لئے کسی انسان کو اپنے مال کی حفاظت میں دوسرے کے مال کو نقصان پہنچانے اپنی جان کی حفاظت میں دوسرے کی جان کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
(۴) عام نقصان سے بچنے کے لئے خاص نقصان برداشت کرلیا جائیگا۔ یتحمل الضرر الخاص للضرر العام، اس لئے لوگوں سے اموال کی حفاظت کیلئے چور کا ہاتھ کاٹا جائیگا اور اور اسی بناء پر تاجروں کو مصنوعی قلت پیدا کرنے یا دخیرہ اندوزی سے روکا جائیگا۔ ٹرافک کے ہجوم کو کم کرنے آمد و رفت کی سہولت کے لئے مالکین امکنہ کو معاوضہ دیکر مکانات کو توڑا جاسکتا ہے۔
(۵) الضرورات تبیح المحظورات،بحالت مجبوری حرام چیز کو کھانا جائز ہوجائیگا۔ معاملات کو آسان کرنے کے لئے قرض، مضاربت، مزارعت اور بیع سلم و غیرہ لین دین اسی قبیل سے ہے اسی میں تحسینات بھی داخل ہیں مثلاً اچھے کپڑے اچھا مکان اچھا کھانا پینا کسی جان کو بچانے کیلئے آپریشن، خون،چڑھانا وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ ضبط تولید و غیرہ بھی اپنے شروط کے ساتھ اسی قبیل سے ہے۔
ضرورت کی پانچ قسمیں ہیں:
دین کی ضرورت نفس و جان کی ضرورت عقلی ضرورت۔
نسل کی ضرورت مال کی ضرورت۔
(۶) أہون البلیتین یعنی دونوں مصیبتوں میں آسان مصیبت کو اختیار کیا جائیگا۔
جیسے شوہر مالدار ہونے کے باوجود بیوی کا نان نفقہ نہیں دے رہا ہے تو شوہر کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ شوہر مجبور و تنگ دست ہے بیوی کو پال نہیں سکتا تو طلاق یا فسخ نکاح کردیا جائیگا۔
اسی طرح غیر اسلامی مذہبی حکومت یا کسی جمہوری سیکولر حکومت میں سے جو بھی حالات و ظروف کے لحاظ سے مسلمانوں کے لئے اہون اور زیادہ منفعت بخش ہوں گے اس کو اختیار کیا جائیگا۔
(۷) دفع مضرت، جلب منفعت پر مقدم: کسی آدمی کو خود اس کی ملک میں ایسے تصرف سے روک دیا جائیگا جس سے دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے۔
(۸) تنگی اور حرج کو دفع کرنا اور اس کو دور کرنا بھی ہے۔ رفع الحرج عن الناس کیونکہ شریعت لوگوں کیلئے ان کے دنیا اور آخرت میں فائدہ کے لئے ہے ’’وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ‘‘(سورۃ ابراھیم:۷۸)
(۹) فرد و جماعت کی اپنے اپنے دائرہ میں آزادی: اسی بناء پر اشتراکیت اور مغربیت غیر شرع ہیں۔ کیونکہ کسی فرد کی آزادی ختم کردی گئی ہے کسی میں فرد کو بے لگام کردیا جار ہا ہے۔
(۱۰) ان مبادی فقہ میں عدل بھی ہے {اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ} (سورہ نحل: آیت۹۰) { وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَناٰنُ قَوْمٌ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی} (سورہ مائدہ :آیت۸) اسی بناء پر دشمن پر بھی ظلم کرنا جائز نہیں ہے غیر مسلم حربی کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا ضروری ہے حتی کہ اس کی غیبت کرنا بھی جائز نہں ہے۔ حقوق اللہ حقوق العباد ہر جگہ عدل وانصاف سے کام لینا ہے۔ یہ چند مبادی ہیں اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ فقہ اسلامی کس طرح زمانہ کے مسائل کو حل کرتی ہے۔
ائمہ اربعہ اور تقلید شخصی:
تحقیق اور تقلید دو نوں فطری ہیں جب تک انسان میں تحقیق کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی وہ تقلید ہی کرتا ہے یہ اور یہ ایک امر بد یہی ہے جس کیلئے دلائل و براہین کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی بلکہ تنبیہ درکا ر ہو تی ہے۔ کہ اس کو اپنے امام و مقتدی کے انتخاب و اختیار کے وقت کن کن امور کو پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ اسے گمرہ ہونے کا اندیشہ و خطرہ لا حق نہ رہے۔
مسلم شریف میں محمد بن سیرین رحمتہ اللہ کا اثر منقول ہے’’ان ہذا العلم دین فانظرو اعمن تاخذون دینکم‘‘ در حقیقت یہ علم دین ہے پس تم غور کرو اپنا دین کس سے لے رہے ہو کیونکہ شریعت اسلامی کا مدار کتاب و سنت پر ہے۔ اور یہ دونوں سر چشمہ‘قانون اسلام اور اس کے دستو ر ہیں اور فصاحت و بلاغت کے اعلی درجہ پر ہیں اس سے استبناط مسائل ہر کس و نا کس کے حیطہ قدرت سے باہر ہے بلکہ اس کیلئے اعلی درجہ کے عقل اور اونچے درجہ کی فہم درکار ہے۔
علوم عربی ادب صرف ونحو‘ فصاحت وبلاغت معانی و بیان بدیع میں کمال لیاقت ہو اور لاکھوں احادیث اس کی نظر میں ہوں ناسخ و منسوخ سے واقف ہو تفسیر قرآن کے لئے درکار(۳۰۰) علوم اور تقوی و پرہیز گاری میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو۔اسی لئے قرآن پاک اور بکثرت احادیث شریف میں مقلد اور مقتداء و امام کے بارے میں واضح ہدایات دی گئی ہے۔
تقلید کے لغت میں معنی
’’جعل القلادۃ فی العنق‘‘ یعنی انسان کا گردن میں قلادہ ڈالنا ہیں۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف:
کسی مجتہد کے قول پر اعتماد کر کے کہ وہ قرآن و حدیث سے استبناط کرتے ہیں دلیل کا مطالبہ کئے بغیر قبول کرنا۔
تقلید کی غرض و غایت:
مجتہد سے قرآن مجید و حدیث شریف کے احکام معلوم کر کے اس پر عمل کرنا تاکہ سعادت دراین حاصل ہو۔
تقلید فی العقیدہ کا حکم:
جمہور علماء کے پاس بالاتفاق عقائد میں تقلید جائز نہیں جیسے وجود باری تعالیٰ توحید رسالت آخرت وغیرہ۔
احکام شرعیہ میں تقلید کا حکم:
احکام شرعیہ میں تقلید کے بارے میں دو قول(۱) تقلید جائز ہے(۲) تقلید نا جائز ہے۔
جمہورعلماء کے پاس جائز ہے ،بلکہ عام آدمی پر واجب ہے ،اس لئے کہ ہر مسلمان اعمال کا مکلف و پابند ہے اور ہر مسلمان اجتہاد اور دلائل سے واقف ہونے پر مکلف کیا جائے تو بہت سے معاملات اور امور معشیت معطل ہوجائیں گے۔ جبکہ سارے امور اور کسب حلال کیلئے کوشش اور عائلی حقوق وفرائض کی انجام دہی بھی لازمی و ضروی ہے۔
ونیز جمہور علماء کے پاس اجتہاد میں تجزیہ اور اس کے اقسام ہیں اور ان کے پاس مجتہد مطلق کے علاوہ تمام فقہاء مقلدین میں شامل ہیں اور ان کے لئے ان کے حسب درجہ و مرتبہ تقلید لازمی و ضروری ہے۔
اور جو حضرات اجتہاد میں تجزیہ کے قائل نہیں ہے ان کے پاس قرآن مجید و حدیث شریف اور اجماع امت سے مسئلہ کی دلیل و حجت معلوم رکھتے ہوئے کسی کا قول قبول کرنا تقلید نہیں کہلاتا۔ اسی وجہ سے ان کے پاس اہل تقلید طبقات فقہاء میں شامل نہیں ہیں بناء بریں ان کے پا س صرف عامہ المسلمین ہی مقلد کہتے ہیں۔
تقلید کی ضروت۔ شریعت پر عمل کرنے کیلئے جو کوئی اجتہاد پر فائز نہ ہو اور استنباط کی صلاحیت رکھتا ہوں اس کے لئے تقلید ضروری ہے۔ اگر وہ تقلید نہ کرے تو گمراہ ہوجانے کا اندیشہ ہے کیونکہ استنباط مسائل کے لئے علوم عربیہ‘ نحو‘صرف علوم بلاغت‘ عربی ادب سے کامل واقفیت کے بعد تفسیر قرآن کیلئے حسب صراحت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ(۸۰) بطو ر اجناس جملہ (۳۰۰) علوم بطور انواع ضروری ہیں اور احادیث شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے راست طور پر فہم و شرح کیلئے اقسام حدیث اور ان کے قواعد و ضوابط اسمائے رجال، قوی اور ضعیف حدیث ہونا بھی ضروری ہے۔ جو حضرات اس مرتبہ میں نہیں ہیں ان کے لئے ان کے درجہ میں تقلید ضروری ہے تاکہ اپنے قصور فہم اور تقاصر عقل کے سبب غلط راستہ پر جانے سے محفوظ رہیں۔
تقلید نہ کرنے کا حکم۔ تقلید کا انکار در حقیقت اجماع امت اور سواد اعظم کی مخالفت ہے ،جو موجب ضلال وگمراہی ہے۔
تقلید کی قسمیں۔
تقلید کی دو قسمیں ہیں
(۱) تقلید مطلق (۲) تقلید شخصی
تقلید مطلق:
مسائل شرعیہ فرعیہ میں کسی معین امام کے بجائے مختلف ائمہ کے مستنبط کردہ مسائل سے اختیار کرنا۔
تقلید شخصی:
عزیمت و رخصت کے مسائل میں کسی معین امام کے مذہب کے اختیارکرنا۔
قرآن مجید سے تقلید کا ثبوت۔ سورۃ فاتحہ کی آیت’’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ تقلید کے وجوب او ر اس کی اہمیت و ضرورت کے بابت قرآن مجید میںکوئی اور آیت شریفہ نہ بھی ہوتی ہو تو صرف یہ ایک ہی آیت شریفہ اس کے لئے کافی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نیک اورمقرب بندوں کے راستہ پر جن پر اللہ نے انعام کیا ہے چلانے کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور تقلید میں یہی ہوتا ہے۔
قرآن مجید کے معنی و مفہوم میں بہت سی آیتیں موجود ہیں۔’’ فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنْ‘‘ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے دریافت کر لو اسی معنی و مفہوم میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو تمہارے لئے ظاہر ہو اس پر عمل کرو اور جس میں اشتباہ ہو اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کرو(اعلام الموقعین) ’’ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ‘‘ جو میری طرف رجوع ہے ان کے راستہ کی اتباع کرو ’’ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘ جب ایک جماعت دین میں تفقہ حاصل کر کے اپنی قوم میں جاکر ان کو بتائے گی اور وہ اس پرعمل کریں گے تو اسی کا نا م تقلید ہے۔’’وَاِذَا جَائَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْابِہِ وَ لَوْرَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الذِّیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ‘‘(النسائ:۸۳) اہل استنباط کے بتائے مسائل پر عمل کرنے کا نام تقلید ہے۔
تقلید اور حدیث شریف۔ کثرت سے احادیث شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں تقلید کا حکم آیا ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’انی لا ادری مابقائی فیکم فاقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر‘‘(ترمذی شریف‘ابواب المناقب) میں نہیں سمجھتا کہ اب میں تم میں رہوں گا پس تم میرے بعد ابو بکر کی اقتداء کرو دینی مسائل میںاقتداء کرنے کو تقلید کو کہتے ہیں۔ائتموا بی ولیأ تم بکم من بعد کم(بخاری شریف) تم میری اقتداء کرو اور تمہارے بعد آنے والے تمہاری اقتداء کریں۔ اس حدیث پاک سے تاقیامت تقلید کا حکم دیا گیا ہے۔
ایک طویل حدیث میں ہیںکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو حضو ر علیہ الصلوۃ السلام یمن کو روانہ کرے وقت ارشاد فرمایا اے معاذ اگر تم قرآن اور حدیث میں مسئلہ نہ ملے تو کیا کروگے آپ نے عرض کیا اجتہاد کرو ںگا۔ان کے اس جواب پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام خوشی کا اظہار فرمائے اور خدا کا شکر بجا لائے۔(ترمذی شریف) حضرت معاذ کے بتائے ہوئے مسائل پر اہل یمن کا عمل کرنا تقلید ہی تو ہے۔
خیر القرون میں تقلید:
تقلید کا عمل روز اول سے ہی صحابہ’’تابعین و تبع تابعین رضوان اللہ اجمعین کے عہد مبارک اور ہر دور میں رہا ہے۔
چنانچہ بخاری شریف کی کتاب الفرائض میں ہے کہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا’’لا تسئلو نی ما دام ہذا الحبر فیکم‘‘ جب تک تم میں یہ حبر یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھو۔ یہ حدیث شریف تقلید شخصی کی طرف واضح رہنمائی کر تی ہے۔ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کسی اور کی طر ف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ان کے علاوہ بہت سے آثار و سنن میں واقعات سے تقلید شخصی کا ثبوت ملتا ہے۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’انی لأستحیی من اللہ أن أخالف أبابکر‘‘ مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے۔ حضرت شعبی مسروق سے بیان کر تے ہیں کہ صحابہ کرام میںکچھ افراد لوگوں کو فتوی دیا کرتے تھے۔
(۱) حضرت ابن مسعود(۲) حضر ت ابی بن کعب (۶) حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنھم۔
حضرت ابن مسعود حضرت عمر کے قول کے مقابل میں اپنے قول کو ترک کرتے تھے اسی طرح حضرت زید ابن ابی بن کعب کے قول کے مقابلہ میں اور حضرت موسیٰ اشعری‘حضرت علی کے قول کے مقابل اپنے اقوال ترک کردیتے تھے۔رضوان اللہ علیھم اجمعین حضرت جند رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں حضرت ابن مسعود کے قول کو کسی قول کے مقابل میں ترک نہیں کرو ں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قاضی شریح کو لکھتے ہیں کہ تم کتاب اللہ سے فیصلہ کر و اگر اس میں نہ پاوء تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر فیصلہ کرو اور اگر اس میں بھی نہ پاوء تو صالحین نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ دو(اعلام الموقعین) صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے واضح اقوال صریح طور پر تقلید شخصی پر دلالت کرتے ہیں۔
تابعین و تبع تابعین میں تقلید:
تابعین و تبع تابعین کے دور میں تقلیدکی مثالیں دیکھنا ہو تو بخاری شریف پڑھیں کیونکہ امام بخاری نے اپنی کتاب جامع کے چند صفحات کے بعد جگہ جگہ تابعین و تبع تابعین کے اقوال دلیلا ذکر کئے بغیر بطور استشھاد ذکر کرتے ہیں اسی کا نام تقلید ہے اسی طرح یحیی بن معین عبداللہ مبارک‘وکیع بن حرام داود طائی فضیل بن عیاض و غیرہ اہل اللہ اور جلیل القدر محدثین امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کر تے تھے مذکورہ بالا دلائل و براہین سے تقلید کی حجیت اور خیر القرون میں تقلید شخصی کا ثبوت واضح طورپر ملتا ہے اسی طرح ازروئے حدیث شریف’’لا تجتمع امتی علی الضلالۃ‘‘ ساری دنیا مشرق و مغرب شمال و جنوب میں امت کا سواد اعظم اور اہل اللہ‘خاصان خدا کا تقلید پر عمل کرنا اس کی حقانیت کی بین دلیل ہے۔
غیر مقلدین کے اعتراضات:
غیر مقلدین کے عدم جواز پر جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں اہم یہ ہیں۔
(۱)مقلدین امام کے قول کو شارع کی حیثیت دیتے ہیں اور اس کے مقابل میں نصوص کو ترک کردیتے یں اور خود ائمہ کرام سے تقلید کی ممانعت آئی ہے۔ تقلید کی حرمت میںکئی آیتیں موجود ہیں۔
جواب۔ یہ ایک مقلدین پر بہتان اور اتھام ہے کیونکہ کوئی بھی امام کے قول شارع کا درجہ نہیں دیتا بلکہ ان کے اقوال پر وسیلے عمل کرتا ہے کہ وہ نصوص شارع کیلئے شارح ہیں۔ اس کو بیان اور واضح کرنے اولے ہیں اب رہا کوئی اپنے امام کو شارع کا درجہ دیتا ہے تو ایسی تقلید بالاتفاق ناجائز ہے جیسا کہ ابن قیم اس کے متعلق لکھتے ہیں۔’’فھذا التقلید الذی أجمعت الامۃ علی أنہ محرم فی دین اللہ۔‘‘
(۲) ائمہ کرام سے جس تقلید کی ممانعت آئی ہے حقیقت میں انھوں نے اپنے شاگردوں سے فرمایا ہے جو اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں اور دلائل کی حجیت اور اس کی صحت کی معرفت پر کامل دسترس رکھتے ہیں جیساکہ ان قیم نے لکھا ہے’’انھم قالوہ لتلامذتھم المؤھلین الذین لدیھم القدرۃ علی معرفۃ حجیۃ الادلۃ و مدی صحتھا وعلی تفھم دلالا تھا فھؤ لاء لا یصح منھم التقلید الصرف فیمایمکنھم الرجوع الی الادلۃ ،اما العامی الذی لیس اھلا فلیس کلام الائمۃ موجھا الیھم وفرضہ التقلید قطعا‘‘۔ اس سے واضح ہے کہ جو حضرات اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں وہ تقلید نہ کریں اور جن میں اہلیت نہیں ہے ان کیلئے تقلید کرنا فرض ہے۔اسی طرح تقلید کے ناجائز ہونے کے سلسلہ میں قرآن پاک کی آیتیں پیش کی جا تی ہے۔ و ہ سب تقلید فی العقیدہ کے بارے میں ہے اور عقائد میں تقلید کرنا بالاتفاق ناجائز و نادرست ہے۔
تقلید شخصی:
تقلید شخصی کا مطلب یہ ہیکہ عزیمت و رخصت کے مسائل میں کسی امام کے مذہب کو اختیار کرنا اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی کو حسب سہولت ائمہ کے بیان کردہ رخصتوں کو اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تو اس میں نظام حیات نہ صرف خلل پذیر ہوگا بلکہ ضرروضرار کا بھی موجب ہے اور شریعت میںلاضررولا ضرار اساسی قاعدہ ہے۔
مثلا حق شفعہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پڑوسی کو حاصل ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے پاس پڑوسی کو حق شفعہ نہیں ہے۔
کسی جائیداد کے فروخت ہونے کے وقت پڑوسی اپنے آپ کو حنفی مذہب پر ظاہر کر کے حق شفعہ کا دعوی کرتا ہے اس طرح اپنے فائدہ کی خاطر بائع سے مکان حاصل کر کے حق شفعہ کا دعوی کرتا ہے۔ اس طرح فائدہ کی خاطر بائع سے مکان حاصل کرلیتا ہے اور خود جب بیچنا چاہتا ہے تو خود کو شافعی مسلک پر ظاہر کر کے پڑوسی کیلئے حق شفعہ کا انکار کرتا ہے اور کسی دوسرے کو بیچتا ہے جس سے پڑوسی کو ضرر و نقصان پہنچتا ہے اس طرح بیسوں مثالیں موجود ہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ مجتہدین دنیا میں بہت گذرے ہیں لیکن ان کو چھوڑ کر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ دیگر مذاہب غیر مدون تھے اور ان کے اصول و ضوابط غیر منضبط تھے اسی وجہ سے آہستہ آہستہ تمام مذاہب ختم ہوگئے۔
اس کے برخلاف مذاہب اربعہ کے اصول و قواعد اور اس کے جزئیات وفروعات مدون اور موجود ہیں اسی وجہ سے سارے علماء نے مذاہب اربعہ کی صداقت و حقانیت پر اجماع کیا ہے۔ الأشباہ و النظائر میں ہے وقد صرح فی التحری ان الإجماع انعقد علی عدم العمل بمذہب مخالف الأربعۃ لانضباط مذاھبھم وکثرۃ اتباعھم۔
صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پیش آمدہ مسائل میں اپنا اجتہادی حکم بتا ئے ہیں لیکن کائنات کے اندر رونما ہونے والے غیر متناہی امور کے لئے دلائل اجمالیہ اور اس کے اصول و قواعد کی تدوین نہیں کئے اور نہ وہ مدون شکل میں موجود ہیں البتہ ائمہ مجتہدین نے اس کے اصول و قواعد انہی صحابہ کے فتاوے کی روشنی میں باقاعدہ مدون کئے اور اس کے مطابق ہزاروں فروع و جزئیات کا استنباط کئے اسی لئے ان اجتہادی مسائل فقہ کو ان ائمہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
اسطرح ائمہ کرام اگر چہ کی بڑی تعداد میں گذرے ہیں لیکن چا ر کے سواء کسی کی فقہ تمام تفصیلات کے ساتھ مدون نہیں ہوئی اور نہ موجود ہے اس لئے ان چاروں پر امت کا اجماع قائم ہو ا ان میں سے کسی کی بھی تقلید کرنا در حقیقت صحابہ کی تقلید کرنا ہے۔ اور ان کی تقلید حضور علیہ الصلوۃ السلام کی اتباع اور سنت کی پیروی ہے۔
غیر مقلدین غور کریں کہ کیا ان میں سے ہر ایک کو قرآن و حدیث کا اسقدر فہم حاصل ہے کہ استنباط مسائل کر سکے؟ لاکھوں میں سے کتنے احادیث سے وہ واقف ہے۔جبکہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے قو ل کے مطابق مجتہد کیلئے سند ومتن کے ساتھ پانچ لاکھ احادیث یا د ہونا ضروری ہے بلکہ انھیں کی اکثریت عربی ادب کی بنیادی باتوں سے ناواقف ہے۔ اسی وجہ سے ہر غیر مقلد اپنے متعمد علیہ عالم کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرتا ہے او ر یہ تقلید کے سواء او ر کیا چیز ہے۔
اس وضاحت سے صاف ظاہر ہوگیا کہ سارا اختلاف نزاع لفظی ہے کیونکہ ہر مقلد و غیر مقلد اپنے معتمد علیہ عالم کے قول پر عمل کرتا ہے۔
دور حاضر میں کوئی بھی عالم اپنے تقوی وپرہیز گاری اور اجتہاد کیلئے درکار علوم میں علمائے و سابقین بالخصوص ائمہ اربعہ مجتہدین کے عشر عشیر کو نہیںپہنچ سکتا تو کیا یہ بات اچھی نہیں ہوگی کہ اپنے کسی معتمد علیہ عالم کے مقابل میں ائمہ اربعہ جن کے تفقہ اور مجتہد ہونے پر ساری امت کا اتفاق ہے ان پر اعتماد کیا جائے۔اور فروعی اور اجتہادی مسائل میں اس پر عمل کریں۔صدائے عام ہے یار ان نکتہ دان کیلئے
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم اجمعین۔