شیخ الحدیثؒ بحیثیت ناشر دین متین

0

الحمدلله انزل القرآن لھدا ىة الناس کافة والصلاة والسلام علی صاحب الهدى والفرقان وعلی اٰله الذي نجوم الهدى واصحابه اجمعین امابعد:

شیخ الحدیث عمدۃ المحدثین صوفی باصفا عارف باللہ حضرت مولانا محمد خواجہ شریف رحمۃاللہ علیہ ایسے اللہ والے فداپرست انسان ہیں جن کے دل میں خدمت خلق مخلوق خدا کی کامیابی وکامرانی اور انکی ہدایت دینا وآخرت میں نجات اور امت محمدیہ سے دلی وابستگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔
حضرت شیخ الحدیث کی ایک ذات نہیں بلکہ آپ ایک انجمن تھے بلکہ انجمن کے آگے اگر کوئی لفظ ہوتو شیخ الحدیث وہ تھے ،شیخ الحدیث کی زندگی کے کئی پہلو ہیں ان میں سے ایک آپکے دینی خدمات کا پہلو بھی ہے ۔اس موضوع اتنا وسیع ہے کہ آپکے زندگی کا ہر پہلو اس میں شامل ہوسکتا ہے ،حقیقت یہ ہیکہ تعلیم کے بعد آپکی عملی زندگی تمام پہلو کامقصد اور حاصل کلام یہی ہے یعنی دین کی خدمت اسلام کی خدمت ہے قرآن وحدیث کی خدمت۔
معزز قارئین ۔ علم انبیاء کی میراث ہے او ر میراث انبیاء میں دین کی حفاظت ا ور اسکی اشاعت او ر باطل عقائد او رباطل نظریات سے دین کی حفاظت ،قرآن کی اشاعت دین کی اشاعت وحفاظت یہ تمام چیزیں اللہ تعالی نے علماء کو بطور میراث عطاء فرمایا ،نہ جانے جامعہ نظامیہ سے ایسے کتنے لوگ بلکہ ہزاروں علماء وفضلاء پیدا ہوئے جنہوں نے میراث رسول کی اشاعت او راسکی حفاظت میں آپنی زنگیوں کو وقف کردیا اورانکے دینی خدمات کے کیا دکن کیا ہندوستان بلکہ ساراعالم منور ہوا اور دنیا کے کونے کونے او رزمین کے چپہ چپہ میں جامعہ کے علماء ومبلغین ناشر دین متین پھیلے ہوئے ہیں اور اشاعت اسلام اور تبلیغ دین متین میں لگے ہوئے ہیں ۔ویسے تو ہندوستان میں بہت سے نام ہیں جنکو ہم ذکر کرسکتے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں اتنی گنجائش نہیں ایک دونام میں ضرور ذکر کرونگا جنکو عوام تو عوام بلکہ علمی اسلامی دنیا کے اکثر علماء ومبلغین نہ صرف اس سے واقف ہیں بلکہ انکے خدمات کے اپنے لئے نمونہ بنائے ہوئے ہیں ان بزرگ وبرگزیدہ ہستیوں میں ایک مولانا ابوالوفاء افغانی کی ہے جنکو عالم اسلام محدثین وفقہانہ صرف جانتے ہیں بلکہ انکے علمی فقہی وحدیثی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اور دوسر ی ہستی عالم اسلام بلکہ ساری دنیاآپکو عظیم مبلغ،مصحح،مفکر ،مصلح اور اشاعت دین حنیف کے لئے اپنی زندگی کو وقف کرنے والے کی حیثیت سے جانتی ۔یہ وہ حضرات ہیں جن کا شماران لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اشاعت اسلام کو اپنی عائلی زندگی پر ترجیح دی اور عمدۃ المحدثین کا شمار بھی انہی علماء صلحا ء،اولیاء اللہ میں سے جنہوں نے پندرہویں صدی میں اپنے علم وعمل کے ذریعہ اور اپنے بے لوث خدمات کے ذریعہ یہ پابت کردکھایا ۔
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
شیخ الحدیث کے دینی واصلاحی خدمات بہت ہیں انکے احاطہ بھی ممکن نہیں ہے مگر مختصر کچھ سطور میں ذکر کئے جاتا ہوں ۔شیخ الحدیث مولانا محمد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خالق کائنات نے آپکو ایک خاص کام کے لئے پیدا کیا،اور آپ کی ذات گرامی اپنی پیدائش کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا کے تمام لذات وخواہشات کی خیرات کہتے ہو ئے خدمت دین اور اشاعت علوم اسلامیہ کے لئے جٹ کئے اور دین اسلام کی نشرواشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔
آپ اپنے دور طالب علمی کے زمانہ ہی سے اشاعت علم میں اس طرح مصروف ہوگئے کہ آپکی جماعت کے کمزور طالب علم آپ سے رجوع ہوتے اور آپ ان لوگوں کی طرف پور ی توجہ دیتے اور جوچیز یں جماعت میں دوران درس کمزور طلبہ نہیں سمجھ پاتے انکو دوبارہ آسان انداز میں سمجھاتے ۔بعد فراغت علوم اسلامیہ آپ اشاعت دین میں لگ گئے اور اننت پور میں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی آپ کے اخلاص کا اور جدو جہد کایہ عالم تھا کہ آپ ہمیشہ کہتے کہ مدرسہ کے قیام کے لئے نہ پیسے کی ضرورت ہے نہ بڑی عظیم بلڈنگ وعمارت کی ضرورت ہے اور نہ بڑی زمین کی بلکہ مدارس کے قیام او راسکے چلانے کیلئے ضرورت ہے تو صرف اخلاص کی اسی اخلاص کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ اننت پور میں آپ درخت کے نیچے تین طلبہ لیکر مدرسہ شروع کیا۔
پھر اس مدرسہ کو وہاں ذمہ داروں کے سپر د کرکے مغل گدہ چلے آئے اور یہاں اور یہاں پر دارالعلوم مؤتمر العلماء میں بحیثیت مہتمم مدرسہ آپ کا تقرر عمل میں آیا ۔پھر آپ کو آپنے شفیق استاذ محترم حضرت مفتی عبد الحمید رحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ نظامیہ میں بحیثیت مہتمم کتب کتب خانہ تقرر عمل میں لائے پھر آپ مدرس کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینے لگے ،آپکو طالب علمی کے زمانہ ہی سے علم حدیث سے بہت دلچسپی اور لگاؤ تھا۔تدریس کے ابتدائی دور میں آپ کچھ سالوں کہ لئے لطیفہ عربی کالج میں عارضی طور پر علم حدیث کا درس دیتے تھے ،پھر آپ بحیثیت نائب شیخ الحدیث دین کی اشاعت ہمہ تن متوجہ ہوگئے اسی زمانہ میں آپ نے مختلف مساجد میں درس فقہ ودرس حدیث ودرس تفسیر شروع کیا ۔آپ خلوت میں جس جگہ رہتے ہیں وہاں مسجدچمکورہ میں بعد نماز فجر درس تفسیر دیاکرتے تھے اور یہاں پر تفسیر میں صفوۃ التفاسیر کا درس دیتے ہوئے کئی سالوں میں قرآن مجید کی تفسیر مکمل کی ۔عثمان پورہ مسجد چیونٹی شاہ میں بعد نماز عصر بروز جمعہ اور مسجد جعفریہ یہ صنعت نگر میں بروز اتواردرس حدیث وفقہ اور مسجد قادریہ احمد نگر فرسٹ لانسر ماں صاحب ٹینک میں بعد نماز عصر بروزہفتہ درس درس حدیث وفقہ دیاکرتے تھے ،ان دروس کے علاوہ مختلف گاؤں میں حسب ضرورت آپ تشریف لیجاتے اور لوگوں کو دین کی باتیں بتاتے اور عمل کی ترغیب دلاتے ۔
آپ سے بار ہا یہ کہتے سناگیا کہ مسلمانوں کے لئے دینی مدراس کی بہت ضرورت ہے بلکہ فرماتے کہ مسجد سے زیادہ مدرسہ کی ضرورت ہے مسجد کسی کونمازی نہیں بناتی برخلاف مدراس کے ،مدراس لوگوں کونمازی بھی بناتے ہیں اور ائمہ کو بھی تیار کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے آپ ہمیشہ اپنے شاگردوں کی مدارس کے قیام کی ترغیب دیتے تھے ۔آپکے دینی واسلامی خدمات میں جہاں پر مساجد کی تعمیر اور مدارس کا قیام سے وہیں پر دینی علمی،اور اصلاحی کتب کی تصنیف وتالیف بھی ہے جن سے دین کی ا ور اسلام کی اشاعت میں کافی مدد ملی ۔اشاعت دین میں آپکا طریقہ کار بہت عمدہ اور جذا ب تھا آپ کبھی اشاعت دین میں مناظر انہ انداز نہیں اپنایا بلکہ ناصحانہ اور حکیمانہ طریقہ اپنایا دجسکی طرف قرآن میں اشارہ کیاگیا ’’ادعوا إلی سبیل ربک بالحکمۃ والموغظۃ الحسنۃ ‘‘یعنی لوگوں اپنے رب کی طرف حکمت اور اچھے انداز سے بلاؤ۔آپ ہمیشہ مسلک حقہ اہل سنت والجماعت کی اشاعت وترویج میں کوشاں رہے مگر کسی کو مخالف بناکر نہیں بلکہ مخالف کواپنا سمجھ کر محبت وپیا ر سے دین حق اور مسلک کی طرف بلاتے جسکا بین ثبوت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اٹھنے والے ۔اعتراضات کے جوابات ہیں جسکو آپ نے نور غیب کے نام سے ایک کتاب میں جمع فرمائے اور مخالفین کے سامنے ایسا اندازہ اپنایا کہ مخالف اسکو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا۔
عورتوں سہ متعلق ہندوستان پر ہونے والے زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائے اور لوگوں کوقرآن وسنت پر عمل کرنے اور عورتوں کے حقوق کوادا کرنے اور انکے ساتھ نرم برتاؤ کرنے اور وراثت میں انکا حق وحصہ ادا کر نیکی ترغیب دلاتے اور حتی المقدور کوشش کرتے تھے۔آپ نے اشاعت دین کا جو بیڑا اٹھایا وہ صرف اردو دان حلقہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ آپ نے اردو سے ناواقف آندھرا اور تلنگانہ کے مسلمانوں کے لئے تلگو زبان میں دینی خدمات کے لئے’’ اللجنۃ العلمیۃ‘‘کے نام سے ایک انجمن قائم فرمائی اور اس کے تحت اہل خدمات شرعیہ کاتلگو زبان میں ترجمہ کروائے ۔اس کے علاوہ شہر حیدرآباد دکن کے مسلمانوں کی دینی واصلاحی تربیت کے لئے حضرت مفتی عبد الحمیدؒ سابق شیخ الجامعہ کی سرپرستی میں ایک مجلس یہ نام مجلس انوار علیمہ کے نام سے قائم فرمائے ،اس کے تحت کئی مساجد میں بعد نماز عصر ارو ہفتہ واری دروس ودینی اجتماعات کااہتمام ہوتا تھا ۔اور بیسوں مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث ودرس فقہ کااہتمام ہوتا اور سیرت النبی ﷺ کے مجالس اور مختلف دینی محافل کا اہتمام ہوتا تھا۔
مختصر یہ کہ حضرت شیخ الحدیث فرد واحد وہ کارہائے نمایاں انجام دئے جوایک جماعت ملکر بھی بڑی مشکل سے انجام دیتی۔اللہ تبارک وتعالی نے آپکے اوقات میں بھی ایسی ہی برکت لکھی تھی جیسے آپکے علم وعمل میں تھی۔کبھی آپ دولت دنیا اور شہرت کی طرف توجہ نہیں کئے۔آپ کی زندگی اور اخلاص ان لوگوں کے لئے بھی نمونہ ہے جوکچھ دن جماعت میں جاکر یاکچھ نمازیں پڑھ لیکر دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنے آپ کو بڑے عبادت گذار سمجھتے ہیں ،آپ قائم اللیل اور صائم النہھار تھے مگر کسی پر ظاہر نہیں فرماتے۔
آپکے مواعظ جو شیلے نہیں تھے مگر دل پر اثر کرنے والے تھے ۔آپ کو مسائل سنجی میں اور حدیث دانی وحدیث فہمی میں مہارت تامہ حاصل تھی۔عرض یہ کہ آپ ان علماء ربانیین میں سے ایک ہی جنکے بارے میں اللہ تعالی کاارشاد ہے ’’إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘
اللہ رب العزت سے دعا ہیکہ اللہ تعالی آپ کی قبر شریف کو بقعہ نور بنائے اور آپ کا حشر انبیاء وصدقین کے ساتھ فرمائے آمین بجاہ طہ ویٰس ۔

از: حضرت مولانا محمد عبد الغفور قادری رحمت آبادی مدظلہ عالی
شیخ التجوید ،جامعہ نظامیہ وبانی مدرسہ محمدیہ تعلیم الاسلام بنڈلہ گوڑہ ،حیدرآباد