حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد خواجہ شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت ِ نثر نگار

0

الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الانبیا والمرسلین اما بعد!

شہہ نشین پر تشریف فرما صدر جلسہ مفکر اسلام حضرت علامہ مولانا مفتی خلیل احمد صاحب مد ظلہ العالی شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ

ومہمانان خصوصی: حضرت سید قبول بادشاہ قادری شطاری صاحب ۔حضرت سید شاہ گیسو دراز خسرو حسینی صاحب ادام اللہ فیوضہ۔ حضرت سید حسن ابراہیم حسینی المعروف سجاد پاشاہ صاحب ادام اللہ فیوضہ۔  ودیگر مہمانانِ ذی شان، علمائے کرام اساتذہ وطلبہ معہد، وسامعین السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے مقالہ کا عنوان حضرت شیخالحدیث رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت ِ نثر نگار ہے۔

محتر م سامعین!

عمدۃ المحدثین حضرت علامہ مولانا محمد خواجہ شریف صاحب علیہ الرحمۃوالرضوان، سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ وبانی المعہد الدینی العربی کے نثر کو اس دورانیہ میں قلمبند کرنے سے احقر قاصر ہے۔ سعادتمندی کے لئے چند مضامین وکتب کے وہ اقتباسات جن کی ترغیب حضرت قبلہ ہمیشہ عوام اور اپنے شاگردوں کو دیتے تھے پیش کر رہا ہوں۔

حاضرین محترم!

نثر: یعنی ادب کا وہ پہلو جو ایک نظم و ضبط نہ رکھتا ہو اور بکھرا بکھرا ہو وہ نثر کہلاتا ہے۔

اردو کی نثر نگاری کو اگر دیکھا جائے تو اس کے اصناف نظمی اصناف سے بھی کہیں زیادہ ملتے ہیں۔

اردو کا نثری ادب  عربی اور فارسی ادب سے جداگانہ نہیں ہے۔ بلکہ عربی اور فارسی سے موثر اردو نثری ادب فارسی ادب کی عکاسی کرتا ہے ساتھ ساتھ عصری اصناف کو بھی اپنے دائرے میں سمیٹ لیتا ہے۔

نثری ادب میں مذہبی اور غیر مذہبی ادب ہے۔

مذہبی ادب:

اردو زبان میں اسلامی ادب اور شریعت کی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم، احادیث، فقہ، تاریخ اسلام، روحانیت اور تصوف کی بے شمار کتابیں دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔

اسی طرح غیر مذہبی ادب میں افسانہ داستان وغیرہ ہیں۔

نثر لفظی اظہار کا سب سے زیادہ سادہ اور راست پیرایہ ہے اور اسی لئے اس نے اظہار سے تعلق رکھنے والی انسان کی بنیادی ضرورتوں کے لئے ایک ناگزیر حد تک اہم اور مفید کردار ادا کیا ہے۔

نثر کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں اس کے ذریعہ ادبی تخلیقات کی گئیں وہاں اس نے علوم انسانی کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔سادہ نثر کا مقصد مختلف علوم کے متعلق سادہ زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔

حضرت عمدۃ المحدثین علیہ الرحمۃ والرضوان نے مختلف موضوعات پر کتب اور کئی مضامین بزبان اردو اور کئی کتب کا بزبان اردو ترجمہ کیا ہے ۔ حضرت قبلہ کے نثر میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو نثر کو ادب کا ایک حصہ بناتی ہیں۔ حضرت قبلہ کی ادبی تخلیقات میںایک امام اعظم امام المحدثین ہے:

امام اعظم امام المحدثین:

یہ کتاب صفحات پر مشتمل ہے، جس کو مرکزِ تحقیقاتِ اسلامیہ جامعہ نظامیہ نے زیر اہتمام ، مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ کی جانب سے منظر عام پر لائی گئی۔

اس کتاب میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث دانی اور علم الحدیث میں آپ کی امامت کو ثابت کیا ہے۔

اس کتاب میں حسب ذیل مضامین ہیں :

(۱) امام اعظم رضی اللہ عنہ کی صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ملاقات اور ان سے آپ کی روایات ہیں جس کو وحدانیات کے عنوان سے بیان کیا ہے۔

(۲)  امام اعظم رضی اللہ عنہ محدثین کی کتابوں میں۔

(۳) امام اعظم رضی اللہ عنہ کی مجلس۔

(۴) امام اعظم رضی اللہ عنہ کی کتابیں۔

(۵) حدیث شریف کے تحمل واداء کیلئے امام اعظم رضی اللہ عنہ کے شروط۔

(۶) امام اعظم رضی اللہ عنہ کے علم ِ حدیث میں چار ہزار شیوخ اور ہزارں شاگرد، اور مدح وتوصیف کرنے والے بے شمار ائمہ ومجتہدین کی اجمالی فہرست۔

(۷) معترضین کے اعتراضات ان کی غلط فہمی کی وجہ سے تھی۔

(۸) امام اعظم رضی اللہ عنہ کے اصول واستنباط میں حدیث شریف یا اقوال ِ صحابہ کے ہوتے ہوئے قیاس کی اجازت نہیں۔اور قیاس کے مقابلہ میں حدیث مرسل حدیث ضعیف اور استحسان کو ترجیح حاصل ہے۔

(۹) آپ کی فقہ کے مستدل تمام احادیثِ شریفہ مرتبہ صحیح کی ہیں۔

اس کے علاوہ فقہاء  صحابہ امام اعظم  ائمہ اور محدثین کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی ربط کو واضح کرنے کیلئے حضرت قبلہ رحمہ اللہ کے اس قیمتی سرمایہ سے بطور نمونہ تبرکاً وتیمناً  چند اقتباسات نقل کئے گئے ہیں:

(۱) لَوْ کَانَ الْعِلْمُ بِالثُّرَیَا لَتَنَاوَلَہ نَاسٌ مِنْ اَبْنَاء ِ فَارِس۔

علماء عرب وعجم متفق ہیں کہ اس حدیث شریف میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بشارت اور فضیلت ہے۔ اور اس حدیث شریف کا مصداق آپ کی ذات گرامی ہی ہے۔ کیونکہ آپ کے سوا کوئی بھی ابناء فارس میں آج تک آپ کے جیسا کوئی امام، محدث فقیہ اور مجتہد نہیں گزرا۔ آپ نے اپنے علم وفضل سے ساری دنیا کو منور کیا۔ (امام اعظم امام المحدثین ،ص:۲)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات اور ان سے آپ کی روایتیں اس عنوان کے تحت حضرت عمدۃ المحدثین علیہ الرحمۃ والرضوان رقمطراز ہیں:

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں اور یہ آپ کے لئے ایسا فضل وشرف ہے جو ائمہ  اربعہ اصحابِ صحاح ستہ میں سوائے آپ کے کسی اور کو نہیں ملا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء   آپ نے متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور ان میں سے چھ (۶) صحابہ رضی اللہ عنہم سے حدیثیں بھی لیں۔ اُن میں ایک صحابیہ ہیں اور ان چھ صحابہ کے نام یہ ہیں:

(۱) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲)         سیدنا عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(۳) سیدنا عبد اللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (۴)            سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(۵)سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   (۶)       سیدتنا عائشہ بنت عجرد رضی اللہ تعالیٰ عنہا

اور ان حضرات صحابہ سے جو احادیث شریفہ علی صاحبہا الصلاۃوالسلام آپ نے روایت کی ہیں وحدانیات کے نام سے ہم ان کو علحدہ بیان کریں گے۔ (امام اعظم امام المحدثین، ص:۶)

یہ شخص کتنا کثیر الفقہ ہے: اس عنوان کے تحت حضرت قبلہ حقیقہ الفقہ کے حوالہ سے ایک عبارت نقل فرمائے ہیں:

ابوحمزہ شمالی کہتے ہیں کہ ہم لوگ امام باقرؓ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ امام ابو حنیفہ آئے اور انہوں نے آپ سے چند مسائل پوچھے، جب وہ چلے گئے تو امام باقرنے فرمایا: یہ شخص کتنا کثیر الفقہ ہے۔ (امام اعظم امام المحدثین،ص: ۸۲)

امام اعظم امام المحدثین کو لکھنے کا مقصد حضرت قبلہ کا یہی تھا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرنے والے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ امام المحدثین ہیں۔

مقدمہ ثروۃ القاری من انوار البخاری:

یہ مقدمہ صفحات پر مشتمل ہے، جس کو مرکزِ تحقیقاتِ اسلامیہ جامعہ نظامیہ کے زیر اہتمام ، طلبہ فاضل دوم ۰ ہجری کے تعاون سے مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ کی جانب سے طبع کیا گیا۔ اسی طرح طبع دوّم طلبہ فاضل دوم ہجری کے تعاون سے طبع کیا گیا۔

یہ مقدمہ حضرت شیخ الحدیثؒ کی حدیث دانی کا مظہر ہے۔

اس میں حسب ذیل عناوین ہیں:

3درس بخاری شریف کی خصوصیات

3حجیت حدیث شریف اوراس کی اہمیت

3تالیف وتصنیف کتابت وتدوین اور اس فن کے مصنفات

3عہد صحابہ علیہم الرضوان میں کتابت حدیث

3عہد تابعین میں کتابت حدیث

3تبع تابعین کے ما بعد کا سنہرا دور

3حدیث شریف میں لکھی ہوئی کتابوں کے اقسام اور ان کے طریقے۔ طبقات کتب حدیث شریف

3کتب الصحاح الستہ

3محدثین کے مراتب

3مراتب صحاح ستہ

3حدیث ضعیف کے مراتب، اسباب و اقسام

3بخاری شریف کا نام اور اس کا موضوع

3وجہ تالیف

3امام بخاری کا خواب

3بخاری شریف کا مرتبہ

3اصح الکتب کی وضاحت

حضرت قبلہ ہر بحث میں اس کے مصادر اور مراجع کا ذکر فرمائے ہیں، حضرت علامہ سید طاہر رضوی رحمۃ اللہ علیہ صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ فرماتے ہیں: یہ کتاب مولف پر ربانی فیوضات اور طلبہ کے لئے افادیت اور ان کے لئے اسم با مسمی انوار بخاری کا سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ زبان عام فہم ہے اس لئے یہ کتاب نہ صرف اساتذہ وطلبہ حدیثِ شریف بلکہ عامۃ المسلمین کے لئے بھی یکساں فائدہ دیتی ہے۔

مفکر اسلام حضرت علامہ مولانا مفتی خلیل احمد صاحب ادام اللہ فیوضہ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ فرماتے ہیں: مولانا کو ابتداء ہی سے علومِ حدیث سے شغف رہا، اس کی تدریس کو اپنی زندگی کا لازمی جزء بنالیا۔

مصباح القراء حضرت علامہ مولانا محمد عبداللہ قریشی الازہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: محب مکرم مولانا محمد خواجہ شریف علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر ہیں اور عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے، نثر ونظم میں بھی انہیں دسترس حاصل ہے، ماشاء اللہ شریعت کے پابند اور اولیاء اللہ کے طریقہ کے سالک بھی ہیںدینی بصیرت اور علمی قیادت سے بھی بہرہ ور ہیں۔

صحابہ کرام احادیث شریفہ کا دور کرتے تھے:

اس عنوان کے تحت حضرت مولانا محمد خواجہ شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث شریف نقل فرماتے ہیں:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے رہتے، انہوں نے کہا کہ ہم تقریبا ساٹھ آدمی ہوتے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حدیث بیان فرماتے پھر آپ اپنی حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو ہم باری باری سے آپس میں اس حدیث کو دہراتے اور اٹھتے وقت حدیثیں اس طرح یاد ہوجاتیں گویا موتی ہمارے دلوں میں جڑ دی گئی ہوں۔

حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ سب تاکید کرتے کہ احادیث شریفہ کا دور کرتے رہو۔

حضرت قبلہ کے مضامین:

مضمون نویسی اردو زبان کی ایک اہم صنف ہے۔ مضمون مختلف اقسام کے ہو سکتے ہیں جن میں  علمی ، ادبی ، سیاسی ، تحقیقی اور مذہبی  جیسے اقسام کے مضامین شامل ہیں۔

نثر کے منجملہ خوبیوں میں سے ایک مقصد کا اظہار ہے۔ حضرت قبلہ کے مضامین میں مقصدیت کے اظہار کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:

اقتباس ازعامۃ المسلمین اور علماء ذمہ داریوں کے آئینہ میں –

ارشاد خداوندی اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سے معلوم ہوتا ہے مسلمان اس زمین پر اپنے ارادہ سے نہیں آئے ہیں۔ ان کو لایا گیا ہے اللہ نے ان کو لایا ہے۔ کیوں لایا گیا ہے؟ اس کا جواب اور اس کی ساری تفصیلات کو ضبط تحریر لانے کے لیے دنیا کے دفاتر کافی نہ ہوں اسکو اس آیت کے صرف ایک حرف لام میں سمودیا اور جمع کردیا گیا ہے۔ یہ لام (ل) یہاں فائدہ اور نفع کے معنی دے رہا ہے۔ یعنی اے مسلمانو! تم بہترین امت ہو اور تم کو یہاں سارے انسانوں کے فائدہ اور نفع کیلئے لایا گیا ہے۔ اس میںدین ودنیا اور آخرت کی کوئی قید نہیں ہے۔ دیگر لوگوں کی دنیا دین اور ان کی ہر چیز کو مسلمانوں سے وابستہ کردیا گیا ہے تم کسی کو نقصان نہیں پہنچاوگے بلکہ تم کو سارے انسانوں کی دنیا کو بہتر بنانا ہے۔ ان کی ضرورتوں کو بھی تم ہی پورا کروگے ان کو علم کی ضرورت ہے، غذا، پانی اور اچھے مکانات، اچھا ماحول، باغ وبہار، ذرائع حمل ونقل کی سہولتیں، سائنسی علوم، معاشی سیاسی سماجی ہر میدان میں ان کی ترقی تمہاری ہی ذمہ داری ہے۔ اور آج دنیا کو جس چیز کی بھی ضرورت ہے، دماغی سکون دل کا سکون اخلاق کردار اور زندگی کی خوشیاں جسم وروح کی بالیدگی اور دل ودماغ کی پاکیزگی معاشرت اور معیشت قیادت وسیاست کا اچھے سے اچھا نظام، اہل ِدنیا کے لیے تم ہی یعنی مسلمانوں کو فراہم کرنا ہے۔ اس سے زیادہ سارے انسانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ آخرت ہے کہ آخرت میں انکو فائدہ ہو نقصان سے وہ محفوظ رہیں۔ اس کے لئے ان کو ایمان کی ضرورت ہے اسلام اور احسان کی ضرورت ہے۔ تم کو یہاں اسی لیے لایا گیا ہے کہ یہ سارے کام تم کو کرنے ہیں، اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا مسلمانوں سے قائم ہے، مسلمان ہیں تو یہ دنیا ہے اگر مسلمان نہیں تو دنیا کا وجود ہی ختم کردیا جائے گا۔ احادیث شریفہ میں ا س کی وضاحت اور صراحت موجود ہے، اس دنیا کو قائم رہنا ہے تو اس کو مسلمانوں کی ضرورت ہے، یہ خالق کائنات کا اعلان ہے اس میں کوئی دوسری گنجائش نہیں۔ مسلمان ہی اس دنیا کو نقصان سے بچاسکتے ہیں اور نفع سے سرفراز کرسکتے ہیں، اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان یہ کام کس طرح سے کریں گے۔ اس اربوں وکھربوں انسانوں اور بے حد وبے حساب مخلوقات کی دنیا کو نفع رسانی کے کام کس طرح ہو اس کا جواب اور اس کا طریقہ صرف (۳) جملوں میں تمام تفصیلات کے ساتھ بیان کردیا گیا۔ یہ بھی قرآن پاک کا اعجاز ہے۔

(ماخوذ از: عامۃ المسلمین اور علماء ،ذمہ داریوں کے آئینہ میں‘‘۔)

مقصد کا اظہار کے لئے حضرت کے مضمون دینی تعلیم کا مقصد ومنہج سے اقتباس پیش خدمت ہے:

مقصد علم:

علوم دنیاوی کا مقصد اصلاح معیشت ہے۔ اور علوم شرعیہ دینیہ کا مقصد اللہ کی رضاء کے حصول کے لئے شریعت سے واقف ہو کر خود اس پر عمل کرنا اور دوسروں تک بقدر امکان پہنچانا۔ اگر کوئی علومِ دینیہ کو اس کے سواء کسی دنیاوی غرض یا نفسانی خواہش کے لئے سیکھے گا تو اس کے لئے بڑی وعیدیں ہیں۔

حکم علوم دینیہ:

علومِ دینیہ کے حکم سے متعلق اس کے دو مرتبے ہیں، فرض عین اور فرض کفایہ۔ ہر مسلمان کو اپنی عبادت اور پیشہ سے متعلق ضروری مسائل اور وابستگان سے متعلق حقوق وفرائض کے ضروری احکام کو جاننا فرض عین ہے۔ دوسرا مرتبہ فرض کفایہ ہے، تمام علوم شرعیہ میں کمال اور مہارت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔ دینی جامعات اسی مقصد کے لئے قائم کئے گئے ہیں، کہ یہاں سے علماء  فضلاء  مفتیان دعاۃ اور مبلغین کی ایک ایسی جماعت تیار ہو جو تمام مسائل میں قوم کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ اس کے حصول کی خاطر اساتذہ اور طلبہ کے لئے فراغت اور کمال یکسوئی ضروری ہے۔

دینی تعلیم کا مقصد ومنہج:

نثر کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ادائیگی کی سہولت اور روانی ہو، اچھی نثر میں اچھی گفتگو کی سہولت اور روانی ایک پسندیدہ تاثر رکھتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تحریر میں روانی وسلاست نمایاں طور پر پائی جاتی ہے: جیسے حضرت فرماتے ہیں:

عورت سلے ہوئے کپڑے پہن سکتی ہے، رنگین کپڑے بھی پہن سکتی ہے اور سر کو ڈھانک کر رکھے گی۔ اگر سر کھلا رکھے تو کوئی جنایت نہیں ہے۔ چہرہ کو کپڑا لگنے نہیں دے گی۔ مرد کو چاہئے کہ وہ بھی چہرہ کو کپڑا نہ لگائے، تکیہ پر سر کے بل اور رخسار کے بل سو سکتے ہیں۔ چہرہ کے بل سونا جائز نہیں ہے۔

نفس مضمون کا ایک اور اقتباس:(انوار نظارمیہ: ۱۴۲۳ھ۔ م اگسٹ ۲۰۰۲ء )

حدود حرم میں رہنے والے مکی یا حرمی کہلاتے ہیں، حل میں رہنے والے حلی، اور آفاق میں رہنے والے آفاقی اور حدودِ میقات پر رہنے والے حلی کے حکم میں ہیں۔ اب ایک دلچسپ بات سنئیے کہ حدود حرم چاروں طرف یکساں نہیں ہے، کسی جانب تین میل کسی جانب چھ میل، اور کسی جانب اس سے زیادہ ہے اس کی کیا وجہ ہے، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حجر اسود جو کعبۃ اللہ مشرقی کنارے میں نصب ہے جب وہ جنت سے آیا تھا تو نہایت سفید تھا اور نہایت روشن تھا اس کی روشنی چاروں طرف پھیل گئی، ظاہر ہے ہر طرف زمین مسطح نہیں ہے کسی طرف نشیب وفراز کسی طرف میدان وپہاڑ ہیں جس طرف جتنی دور تک روشنی پھیل گئی اس کو حدود حرم بنایا گیا۔

دینی نثر میں حضرت قبلہ عورتوں کے حقوق کو اجاگر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

اسلام میں عورتوں کے حقوق:

اسلام دین فطرت ہے اس میں فطری تقاضے ہر جگہ ملحوظ ہیں۔ اس لیے اسلام نے عورت کو اس کی نسوانیت اور انوثت کو باقی رکھتے ہوئے ایک کامل عورت کی حیثیت سے دنیا میں ہر ایک مذہب سے زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ اس کے بر خلاف آزادی نسوان کے مزعوم دعویدار تحریکات نے عورت کو اس کے حقوق بھی کم دئیے ہیں اور ذمہ داریوں کا بوجھ بھی زیادہ کردیا ہے اور عورت کے ساتھ سب سے بڑا ظلم اور غیر فطری عمل یہ کیا گیا کہ اس کو نیم مرد یا مردوں کے مشابہ بنادیا گیا اور مردوں کی صف میں لاکر کھڑا کیا گیا۔ علامہ اقبال کے اس شعر پر مقالہ کا اختتام کرتا ہوں۔

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین

از : مولانا محمد خواجہ محی الدین حفظہ اللہ
استاذ المعہد الدینی العربی