عمدۃ المحدثین حضرت مولانا خواجہ شریف قبلہ ؒ اور دارالعلوم دینیہ بندہ نوازیہؒ

0

نحمدہ و نصلی علیٰ رسوله الکریم
اما بعد…

عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف صاحب قبلہؒ کی پیدائش کا تعلق گلبرگہ شریف سے گہرا رہا، جب آپ کی والدہ کو ایک عرصہ تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تو اس زمانہ میں بنڈیو ںپر سفر کرتے ہوئے گلبرگہ  پہنچے بارگاہ بندہ نوازؒ میں حاضری دی اور آپ کی والدہ نے منت مانگی کہ مجھے اولاد ہو جائے تو آپ کے نام پر نام رکھوں گی اسی نسبت سے آپ کے نام کے ساتھ خواجہ شریف رکھا گیا۔ چنانچہ آپ ہمیشہ قلبی و روحانی طور پر آستانہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ رہے۔

آپ کی حیات و خدمات پر آج کا یہ سیمینار منعقد ہے جس میں ہم سب جمع ہیں حضرت ممدوح  ؒکی زندگی کی ابتداء اپنے اباء و اجداد کے طرز پر بڑی سادہ رہی ۔جامعہ نظامیہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہیںسے آپ نے فراغت بھی پائی ۔

خالق کائنات کے فضل وکرم، نبی رحمت کی عظمت و محبت اور اولیاء اللہ کا ایک کشادہ سائبان بن کر سارے عالم میں پھیلے ہوئے یہ دینی مدارس وخانقا ہیں ابتداء ہی سے حسن اخلاق کی تعلیم وتربیت میں مشغول اور منہمک ہیں ۔زندگی کے لئے بلندوبالاافراد اور دینی تعلیم کے عملی پہلو کے محرم راز شخصیات کا نمونہ تیارکرتی آرہی ہیں۔ان شاء اللہ یہ سلسلہ اپنی جولانی کے ساتھ صبح قیامت تک قائم ودائم رہیگا۔

انہیں دینی مدارس میں ایک جامعہ نظامیہ ہے۔ اخلاق حسنہ ،حیات طیبہ نیز دین اسلام میں حکمت و دانائی کا ایک اعلیٰ نمونہ اسی جامعہ نظامیہ کی ایک عبقری شخصیت ہیں جن کا اسم گرامی عمدۃالمحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف صاحب قبلہ شیخ الحدیث ہے جنہوں نے 6 /ربیع الثانی1440 ھ م 14 /دسمبر 2018 ء بروز جمعہ وصال فرمایا۔ مولانا ممدوح کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جبکہ وہ بارگاہ بندہ نواز ؒ میں حاضری کا شرف حاصل کرنے لگے تھے۔ بارگاہ میں آمدورفت کے ذریعہ حضرت سے میری قربت بڑتی گئی اور آپ کے حسن اخلاق کے مختلف گوشے مثلا زبان و بیان کی لطافت و نرمی اور خندہ پیشانی، شفقت اور تواضع یعنی عاجزی و انکساری کی بناء ربط کو تقویت ملتی رہی۔

آپ نے اپنی ذات کو خاکساری اور منکسرالمزاج ہونے میں رضاء الٰہی اور اتباع حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورآل رسول میں لگائے رکھا۔ آپ کی عاجزی و انکساری میں قرآن مجید کی آیت کریمہ کے درس میں ایک جادو جیسا کام کیا۔جیساکہ ارشادِ ربانی ہے۔ یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین اوتواالعلم درجات( سورہ مجادلہ آیت نمبر 11) ترجمہ :تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالی انہیں بلند فرماتا ہے اور جنہیںعلم عطا کیا گیا اللہ تعالی انہیںکئی درجے بلند فرماتا ہے۔

یعنی سچا ایمان اور صحیح علم ،انسان کو ادب و تہذیب ،عاجزی و انکساری سکھلاتا ہے ۔جو شخص اس آیت کریمہ کا مصداق بن جاتا ہے تو ہر بلندی پالیتا ہے۔ یہی بات تھی کہ حضرت والا بظاہر کمزور و ناتواں معلوم ہوتے تھے لیکن بلند درجات کے سبب عوام و خواص میں مرکزی شخصیت بن کر مرجع خلائق نظر آتے ہیں۔

تواضع وخاکساری کاایک شعبہ اعتدال ہے ہر مقام پر اور کسی بھی مسئلہ میں آپ نے اعتدال ہی کو ترجیح دی ویسے ہرمتواضع وعلمی شخصیت اپنے تمام امور حیات میں معتدل نظر آتے ہیں ۔جامعہ نظامیہ  کے اکابرین میں ایک حضرت مولانا خواجہ شریف صاحب قبلہؒ کی شخصیت بھی ہے جو فضل و کمال کے اعتبار سے اپنے میں ایک انفرادیت رکھتی ہے۔

تدریسی میدان میں حضرت ممدوح  ؒ اپنی شخصیت کے اعتبار سے ہر فن مولی تھے ایک ہی وقت میں وہ مختلف فنون مثلاتفسیر ،حدیث،فقہ، اور ادب میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔مولانا محمد خواجہ شریف صاحب قبلہ  ؒنے علامہ مفتی عبدالحمید صاحب قبلہ ؒ  کی ایما ء پر جامعہ نظامیہ کی خدمات کو قبول فرمایا ابتداء میں آپ نے بحیثیت معلم دینیات جامعہ کی خدمات پر ماموررہے اور بتدریج ترقی پاتے ہوئے تاحیات شیخ الحدیث کی حیثیت سے جامعہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔علاوہ ازیں فن شاعری میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی اردو اور عربی زبان میں شعر کہتے۔آپ کا شعری کلام زیادہ تر حضورﷺ کی نعت گوئی پر مشتمل ہے۔

نیز حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی شان میں آپ نے ایک قصیدہ ترتیب دیا اور بائس 22خواجگان کی شان میں آپ نے 22 اشعار تحریر فرمایا لیکن تلاش کے باوجود یہ قصیدہ مل نہ سکا۔

جامعہ نظامیہ کے علاوہ آپ کے علمی خدمات کا ایک وسیع دائرہ تھا نیز اپنی دور زندگی ہی میں ’’المعہد الدینی العربی ‘‘کے نام سے بحیثیت بانی ایک ادارہ قائم فرمایا جو آپ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔

آپ کی علمی خدمات نہ صرف جامعہ نظامیہ کی حد تک محدود ہیں بلکہ ہفتہ واری درس حدیث وفقہ کا سلسلہ بھی شہر کی مختلف مساجد میں جاری تھا جس سے عوام الناس بڑی تعداد میں شریک رہ کراستفادہ کرتے رہے۔نیز ملک و بیرون ملک آپ کے علمی خطابات اوروعظ و بیان سے اہل عرب و عجم مستفید ہوتے رہے ۔مزید میں یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ۱۹۸۳؁ء میں خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی کی مراسلت کی بنا جامعہ نظامیہ کی اجازت پر مولانا خواجہ شریف قبلہؒ کو میرے والد بزرگوار غفران مآب حضرت سید شاہ محمد محمد الحسینی  ؒ نے بحیثیت صدر مدرس دارالعلوم دینیہ بندہ نواز یہ تقرر فرمایا آپ نے چھ ماہ تک گلبرگہ شریف میں رہ کر دارالعلوم کو خوب پروان چڑھایا، عوام الناس اور طلباء میں علم دین کے حصول کا شعور بیدار کیا ۔آپ طلبہ کو بعد نماز عشاء آسان انداز میں تعلیم دیا کرتے، آپ کا طریقہ تعلیم نہایت عمدہ تھا جس کی بناطلبہ آسانی سے مولوی کی جماعت کے لئے تیار ہوگئے۔ جب بھی آپ گلبرگہ تشریف لاتے دارالعلوم دینیہ کے اساتذہ کی ایک کمیٹی ضرور لیتے اور طرز تعلیم سے متعلق طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ۔نتیجے میں آج ہمارے اس دارالعلوم میں جماعت فاضل تک تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ۔آج ہمارے فارغین ملک کے مختلف مقامات پر خدمت انجام دے رہے ہیں جو علم سے آراستہ کر رہے ہیں۔

جامعہ نظامیہ میں جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آتا تو آپ ایک ثالث کی حیثیت سے اپنی رائے پیش کرتے تاکہ مسئلہ کا حل آسانی سے ہو جائے۔ مولانا  ؒکی شخصیت کو سمجھنے کے لئے میں یہاں یہ کہوں گا تو بے جا نہیں ہوگا کہ جس وقت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب قبلہ ؒ سابق شیخ الجامعہ نظامیہ کا وصال ہو رہا تھا آپ نے پوچھا کہ اس وقت خواجہ شریف کہاں ہیں تو موجود طلبہ نے کہا کہ اس وقت کچھ ضروری مسائل میں مصروف ہیںلیکن حضرت مفتی ؒنے فرمایا کہ خواجہ شریف اس وقت مامور من اللہ ہے۔ حضرت مفتی صاحب ؒ کے اس جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا خواجہ شریف صاحب قبلہ ؒ ہمیشہ جامعہ کے کاموں میں پوری طرح اخلاص کا مظاہرہ فرماتے رہے۔نیز زندگی کے تمام معاملات میں مولانا خواجہ شریف ؒ ہمیشہ اخلاص کا پیکر بنے رہتے۔

حضرت ممدوح  ؒنے جہاں اپنی علمی خدمات سے ایک عالم کو بہرہ ور کیا وہیں پر اپنے قلمی کاوشوں سے بھی طلبہ اور عوام الناس کو استفادہ کا خوب موقع دیا۔ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کے عرس شریف کے موقع پر آپ نے ہماری دعوت کو قبول فرماتے ہوئے اپنی تحقیقی مقالات سے محظوظ فرمایا کرتے ۔آپ نے حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآرائ’’ تفسیر الملتقط‘‘پرجو مقالہ پیش فرمایا توآپ نے خود بڑے جوش و جذبے کا اظہار فرمایا اور کہا کہ میں نے تفاسیر کا  بہت مطالعہ کیا اس جیسی تفسیر میں نے ابھی تک نہ پڑھی اور نہ دیکھی ہے ۔پھر فرمایا کے یہ ایک صوفیانہ تفسیر ہے جس کو حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے وراء الورا کی منزل میں تحریر فرمایا۔

پھرحضرت ممدوح  ؒفرماتے ہیں کہ ’’ تفسیر ملتقط کے بارے میں ایک بات جو سب کو سمجھنا چاہے عالم ہو کہ غیر عالم، خاص ہو کہ عام وہ یہ کہ جتنے مفسرین آج تک دیڑھ ہزار سال کے وقفہ میں آئے ہیںاور جتنی تفاسیر عربی، اردو، فارسی اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی ہیں ان تمام مفسرین نے اپنا فرض پورا کیا ہے اس کے باوجود ایک فرض اور قرض باقی تھا اسی کو حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الملتقط ‘‘کے ذریعہ ادا کیا ہے۔( شہباز ظفر نمبر2؍ 2018؁ئ)

۲۰۰۲؁ء میں بارگاہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انعقاد عمل میں آیا اس وقت میرا مجموعہ کلام’’ ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی رسم اجرا ء عمل میں آئی اور آپ نے اس وقت اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب تشریح کرتے ہوئے جلسے سے خطاب فرمایا اور خوب داد تحسین حاصل کی تو اس وقت بھی میرے والد بزرگوار نے پہلی مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ حقیقت میں آپ عمدۃ المحدثین ہیں ۔

آپ نے اپنے دور حیات میں چندکتب بھی تحریر فرمائیں کہ جس وقت بدعقیدگی کا دور تھا جہاں لوگ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کا انکار کر رہے تھے تو آپ نے سب سے پہلے حضرت مفتی عبدالحمید صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت سے نور غیب کے نام سے ایک کتاب شائع فرمائی۔ جس کو خوب سراہا گیا ۔عقائد و مسائل پر آپ کے بے شمار مضا مین شائع ہوچکے ہیں۔ تقلید کے عنوان کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں بے ادبی کی جا رہی تھی آپ نے ’’امام اعظم  ؒ امام المحدثین ‘‘ شائع فرمائی ۔حضرت عبداللہ شاہ قبلہ ؒکی تصانیف زجاجۃ المصابیح کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا نیز ہر سال جامعہ نظامیہ میں ختم درس بخاری کا جاری رہنا یہ وہ علمی وقلمی خدمات ہیں جن کو رہتی دنیا تک کوئی شخص فراموش نہیں کرسکتا۔

اس بات پر میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ اس دنیا سے سفر آخرت اختیار کرنے والوں کو دنیا اس حوالے سے یاد نہیں کرتی کہ اس نے کتنی زمین و جائداد چھوڑی یا کتنا مال و اسباب چھوڑا بلکہ وہ انسان دوستی ،خدمت بندگان خدا، اخلاص ،جذبہ صلہ رحمی وغیرہ کی بنا یاد رکھتی ہے ۔اللہ تعالی کی جانب سے حاصل شدہ نعمتوں میں حاجت مندوں اور محتاجوں کوحصہ دار بنانا نیز اپنی علمی خدمت سے ضرورت مندوں کی علمی پیاس بجھانا یہ وہ اوصاف حمیدہ جو دنیا میں ایک عرصہ تک یاد رکھے جانے کاوسیلہ بنتے ہیںایسے ہی اخلاق اور اوصاف حمیدہ کے حامل حضرات میں ایک حضرت مولانا ممدوح  ؒکی شخصیت ہے جن کو رہتی دنیا تک ان کی خدمات کو سلام کرتی رہے گی۔

آپ کا وصال نہ صرف جامعہ نظامیہ کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے بلکہ تمام اہل علم اور مریدین و وابستگان کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔اس خلا ء کو پر کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔آپ کی علمی شخصیت اسلاف کا ایک نمونہ تھی بزرگان دین کے اوصاف و کمالات کی جامع تھی، جن سے علم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کا ایک بڑا حصہ محروم ہوگا۔

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس کے اعلی مقامات عطا فرمائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خواجہ گیسو دراز بندہ نواز ؒ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے ۔آمین۔ بجاہ طٰہٰ ویٰس صلی اللہ علیہ وسلم۔