عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف علیہ الرحمہ بحیثیت فقی

0

الحمد لله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین، وآله الطیبین الطاهرین وأصحابه الأکرمین الأ فضلین والتابعین لهم باحسان إلی یوم الدین ۔
اما بعد :

صدر عالی مقام مفکر اسلام استاذ الاساتذہ میرے خضرِ راہِ حیات حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب قبلہ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ،

تقدس مآب حضرت ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی صاحب سجادہ نشین بارگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ ،

شہ نشین پر تشریف فرماعلمائے کرام، مشائخ عظام ،منتظمین مذاکرہ، بزرگان ملت، برادران اسلام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے مقالہ کا عنوان ہے حضرت عمدۃ المحدثینؒ بحیثیت فقیہ جوکہ اہل علم بلکہ اسلامیان ہند کے لیے قا بل قدراور باعث دلچسپی ہے،فقد قال  سبحانہ وتعالی :’’ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیرا کثیرا‘‘ (البقرۃ2:269) ترجمہ:اور جو شخص  حکمت و دانائی سے سرفراز کیا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ خیر کثیر سے مالا مال کردیا گیاہوتا ہے، مفسرین کرام نے’ ’الحکمۃ‘‘ کی تفسیر میں جو متعدد معانی بیان فرمائے ہیں، ان کے منجملہ ایک تو ’’علم حدیث شریف‘‘ اور ’’سنت مطہرہ‘‘ ہے اور دوسرے ’’تفقہ فی الدین یا علم الفقہ‘‘ بھی ہے ۔

ا ور جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے’’تفقہ فی الدین ‘‘ کاملکہ عطا فرماتا ہے؛ یعنی اسے فقاہت شعاربناتا ہے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں درج ذیل حدیث شریف کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ:’’ من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین و إنما أنا قاسم واللہ یعطی، و لن تزال ہذہ الأُمَّۃ قائمۃً عَلٰی أمرِ اللہِ لا یَضُرُّہم مَنْ خَالَفہم حتّٰی یَأْتِیَ أَمْرُ اللّٰہ‘‘۔ (صحیح البخاری؛ کتابُ العلم: باب 13، حدیث: 72) یعنی اللہ تعالی جس شخص کے حق میںارادئہ خیر فرماتا ہے اس کو دین اسلام کی سمجھ بوجھ عنایت فرماتا ہے، اور بلاشبہ میںہی تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالی عطا فرماتا ہے۔

اور ہمارے ممدوح گرامی حضرت عمدۃالمحدثین علیہ الرحمہ نے دیگر گوناگوں خصائص وکمالات کے بشمول حدیث دانی اور تفقہ فی الدین کے ملکہ کا حظ وافر پایا تھا،

اِس تمہید کے بعد اصل موضوع پر روشنی ڈالنے کیلئے فقہ ؍ فقیہ کی تعریف ناگزیر ہے، تاکہ موضوع کو سمجھنے میں سہولت ہو۔

فقہ کی تعریف: ’’ہو العلم بکُلِ الأحکام الشرعیّۃِ العملیّۃِ التی ظہر نزول الوحی بھا، والّتی انعقد الإجماعُ علیہا مِن أدلّتِہا معَ ملکۃِ الاستنباط الصحیح منہا‘‘۔ فقیہ اُس عالم کو کہتے ہیں جو قرآن وحدیث سے ثابت شدہ یا اِجماع شدہ تمام اَحکام شرعیہ عملیہ کو، اُن کے ادِلّہ کی روشنی میں جانتا ہو، نیز اُن سے قیاسِ شرعی، استنباطِ صحیح کرنے کا ملکہ اور صلاحیت رکھتا ہو۔ (صدر الشریعہ عبید اللہ بن مسعود بن تاج الشریعۃ: التوضیح شرح التنقیح)

فقیہ اور فقہ کی تعریف کرتے ہوئے حضرت شیخ الاِسلام بانیٔ جامعہ نظامیہ قدّس سرّہٗ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’’فقہ کے لغوی معنی شقّ و فتح کے ہیں؛ جیساکہ علامہ زمخشری نے ’’فائق‘‘ میں لکھا ہے: ’’الفقہ حقیقۃً الشقّ والفتح، والفقیہ العالم الذی یشقُّ الأحکام و یُفَتِّشُ عن حقَائِقھا و یفتح ما استغلق منہا‘‘۔ یعنی فقہ کے اصلی معنی شقّ و فتح کے ہیں۔ اور فقیہ اُس عالم کو کہتے ہیں جو احکام میں موشگافیاں کرکے اُن کے حقائق کو معلوم کرے اور مشکل اور مغلق امور کو کھولدے‘‘۔ انتہیٰ۔ (شیخ الاسلام محمد انوار اللہ فاروقی  ؒ: حقیقۃ الفقہ: 1؍17)

حضراتـ گرامی:  حضرت عمدۃ المحدثین رحمۃ اللہ علیہ جملہ علوم آلیہ وعالیہ پر مکمل دسترس رکھنے والے عبقری ادیب و عالم دین تھے، آپ کی خدادادفطانت، غیر معمولی لیاقت، شوق مطالعہ ذوقِ تحقیق، ژرف نگاہی، دیدہ ریزی اور دیدہ وری، وسعتِ قلب و رحابت صدر، اعتدال فکر و نظر، ملکہ استنباط و قیاس اور فقہی مذاق و شغف اور امام اعظمؒ سے حسن عقیدت و محبت نے علم و ادب، حدیث و فقہ اور تحقیق کے وہ شہ پارے اور درر ہائے آبدار بکھیرے ہیں جن کے جائزہ کے لیے تحقیقی وقیع مقالے درکار ہوں گے، اس لئے راقم میدان علوم و فنون کے اس شہسوار کی فقہی تحقیقات و خدمات کے چند اشارے اور اقتباسات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔

حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی فقہی خدمات کو ہم حسب ذیل قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

۱) رِجالُ الفقہ کی تصنیف؛ یعنی طلبۃ العلم کو کتب فقہ و اصول کی تدریس ۔

۲)عامۃ المسلمین کے لیے ہفتہ واری دروس حدیث وفقہ کا اہتمام، سلفیت زدہ لوگوںکوفقہ حنفی کی حقانیت کی تفہیم ۔

۳)فقہی رسائل کی تصنیف وتنقیح؛جیسے: رسالۂِ حج و زیارت

۴)کتب فقہ کا ترجمہ ،ضروری نوٹس اور افادات بین القوسین کے ساتھ، جیسے کنزالدقائق ،شرح وقایہ وغیرہ کا ترجمہ جو منتظر طبع ہے۔

۵)مسائل جدیدہ پر فقہی مقالات و مضامین جو مختلف سالناموں اور جرائد و اخبارات میں بکھرے ہوئے ہیں یکجا کئے جانے کی دعوت دے رہے ہیں۔

حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کاایک عظیم الشان مقالہ’’ مسائل جدیدہ اور فقہ حنفی‘‘ کے بعنوان سالنامہ انوار نظامیہ21 14 ھ ،م 2000ء میںطبع شدہ ہے، جو آپ کے تفقہ کا شاہد عدل اور آئینہ دار ہے،اس کا ایک اقتباس آپ کے پیش خدمت ہے:

’’فقہ اسلامی کی دوایسی خصوصیات ہیں جو دنیا کے مابقی تمام مذاہب و ادیان سے فقہ اسلامی کو ممتاز کرتی ہیں اور اسی کی وجہ سے فقہ اسلامی زمان و مکان کے لئے یکساں مفید ہے: (1) ثبات( 2)مرونت۔

’’ثبات‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ ناقابل تنسیخ ہے۔’’ مرونت‘‘یعنی اس کا لچکدار ہوناہے۔

یہ فقہ ہر زمانہ کے ساتھ برابر چلتی رہتی ہے ،اور یہ ایک آفاقی قانون ہے، اس کے حدود اربعہ سے زمین و آسمان کا کوئی حصہ باہر نہیں۔

انسان چاند پر پہنچا ،خلائی راکٹوں میں سوار ہو کر کئی کئی ہفتے زمین و آسمان کے بیچ محض فضاء میں سکونت اختیار کیا،ٹی وی انٹرنٹ کے ذریعے آن واحد میں دنیا کے کونے کونے میں اپنی آواز، اپنی فوٹو، اپنے حرکات و سکنات کو روانہ کر رہا ہے، چند گھنٹوں میں ساری زمین پر اوپر نیچے کی ہر سطح سے گزر رہا ہے ،ان سائنسی ترقیات کی وجہ سے کتنے نئے مسائل پیدا ہوئے ،بلادغربیہ سے ہندوستان پہنچنے والے کے لئے تھوڑی ہی دیر میں عصر کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے پھر ظہر کا وقت آ جاتا ہے ،پہلی تاریخ کو نکل کر سفر کرنے والے آدمی کوا بھی دو چار گھنٹے بھی نہیں گزرتے کے مہینہ پلٹ جاتا ہے ،پھر پلٹ کر۲۹/ تاریخ آ جاتی ہے‘‘

حضرت علیہ الرحمہ پھر آگے تحریر فرماتے ہیں :

’’علم فقہ کے شہر میں داخلہ کے لیے اس کے خاص دروازے ہیں ،اور اس کے سمندر میں غوطہ زنی کے اسباب ہیںجواس کے اصول کہلاتے ہیں اور یہ دس ہیں؛(تلک عشرۃ کاملۃ)، یہ جملہ د س اصو ل اجناس کے طور پر ہیں اور ان میں ہر ایک کے بیس انواع ہیں ۔ چنانچہ ان دس اصول کو بیس میں ضرب دینے سے دو سو ہو جاتے ہیں۔ اور یہ علوم عربیہ کے قواعداور فصاحت و بلاغت کے اصول اورفقہ کی مبادیات کے علاوہ ہیں۔ یہ دس اصول بنیاد ہیںفقہ کی ساری عمارت اسی پر قائم ہے‘‘۔

( سالنامہ انوار نظامیہ، جمادی الاولیٰ 421 1ھجری مطابق اگست 2000ئ)

ورق تمام ہوا، مدح ابھی باقی ہے                سفینۂ چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے

وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہٖ أجمعین و الحمدللہ رب العالمین۔