یاد آتی ہیں بہت آپ کی باتیں ہم کو…..

0

اپنے استاذ، شیخ، مربی اور مرشد کو خراج عقیدت
مولانا محمد انوار احمد صاحب حفظہ اللہ
نائب شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ

برصغیر کی دینی و علمی افق پر درخشاں ستاروں کی مانند جگمگانے والے اکابر علماء میں نمایاں نام شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ محدث کبیر فضیلۃ الشیخ مولانا محمد خواجہ شریف صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان کا ہے۔آپ عصر حاضر میں متقدمین علماء کا نمونہ اور اہل اللہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔

حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی کتاب ِ زندگی کا ہر ورق اس قدر ستھرا اجلا اور منور ہے کہ اسے پڑہتے ہوئے دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں۔آپ کی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہیں بیان کرنا اس لئے بھی آسان نہیں کہ یہ چھ دہاہیوں پر محیط تسلسل ہے۔ علم و فضل کا یہ جھرنا گذشتہ چھ دہوں سے مسلسل بہتا رہا اور نہ جانے کتنے افراد اداروں اور جامعات کوسیراب کرچکا ۔

ملک بھر میں بے شمار مدارس اسلامیہ کا احیاء و انشاء ،دینی تحریکوں کا قیام، علوم اسلامیہ بالخصوص علم حدیث کی نشر و اشاعت کے لئے انتھک جدوجہد ،عربی زبان کے فروغ کے لئے سرگرمیاں ،مساجد میں دروس کا سلسلہ ،کئی ایک علمی و تحقیقی کتابوں کی تصنیف و تالیف ،تراجم و تحقیقات درس و تدریس مواعظ و ارشادات طریقت کی مجالس علماء کی نئی نسل کی تربیت اور مختلف اداروں کے انتظامی امور کی نگرانی جیسے درجنوں وقیع کام ایک تنہا ذات نے انجام دیے۔

یہ سب وہ خدمات ہیں جن پر ہلکی سی روشنی بھی ڈالی جائے تو سینکڑوں صفحات ناکافی ہوں گے۔ اس موقع پر مختصر وقت میں چند اہم علمی خدمات کو بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 سب سے پہلے شخصیت سے متعلق کچھ باتیں۔

15شوال المکرم 1359ھ کو آپ کی ولادت باسعادت ہوئی اور 6 ربیع الثانی 1440ھ قبل از نمازجمعہ آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس طرح رب العزت نے آپ کو زندگی کے میدان عمل میں8 دہوں تک رہنے کا موقعہ عنایت فرمایا۔ حصول علم کے ابتدائی برسوں کے بعد ہی سے آپ دین کی نشر و اشاعت اور علوم اسلامیہ کی خدمت میں مصروف رہیعمر کی آخری منزلوں میں بھی علمی میدان میں نوجوانوں سے زیادہ فعال اور متحرک رہے۔تادم زیست شریعت و طریقت کی خدمت انجام دیدنیا بھر میں اسلام کی حقیقی فکر کو عام کیا ۔

نباض فطرت نے آپ کو بیک وقت کئی علوم و فنون میں ید طولی عطاء کیا تھا۔آپ بیک وقت مفسر،محدث،فقیہ،اصولی اورادیب تھے۔تاہم شیخ الحدیث کی حیثیت سے علم حدیث کے سلسلہ میں آپ کی خدمات مثالی نوعیت کی حامل تھیں۔حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ و الرضوان بانی جامعہ نظامیہ نے حدیث موضوع سے متعلق ایک لاجواب کتاب بزبان اردو بنام’’ الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ قلمبند فرمائی ہے۔

اپنے موضوع اور مواود کے اعتبار سے یہ ایک منفرد تالیف ہے حضرت شیخ الحدیث نے 2001ء میں اس کتاب کو عربی قالب میں منتقل فرمایا (86) صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مرکز تحقیقات اسلامیہ جامعہ نظامیہ کے زیراہتمام اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ نے شائع کیا ہے۔ کویت اور عرب دنیا کے بہت سے علماء نے آپ کی ترجمہ کردہ کتاب سے استفادہ کیا اور حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے فیضان علمی سے مستفیض ہوئے۔

جشن تاسیس جامعہ نظامیہ کے موقع پر ایک دس نکاتی پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ جس میں اسلامک ریسرچ سنٹر یعنی مرکز تحقیقات اسلامیہ کا قیام بھی شامل تھا چنانچہ ارباب جامعہ نے اس ادارہ کی داغ بیل ڈالی اور حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی کو مدیر کی حیثیت سے ادارہ کی اہم ذمہ داری تفویض فرمائی۔ الحمدللہ آپ کی ادارت میں اس ادارہ سے کئی علمی جواہر پارے زیورطبع سے آراستہ ہوکر عامتہ المسلمین اور اہل علم تک پہنچ چکے ہیں۔ اس ادارہ کے تحت شائع ہونے والی اولین کتاب ثروۃ القاری من انوار البخاری ہے۔

حضرت شیخ الحدیث کے علمی خدمات میں اہم ترین کارنامہ امام اعظم امام المحدثین کی تالیف ہے۔ اسے ایک الہامی تصنیف قرار دیا جاسکتا ہے حضرت شیخ الحدیث کے علم و فضل اور نقد و تحقیق کا آئینہ اور شاہکار کتاب ہے۔ برصغیر ہندو پاک کے غیرمقلدین آج بھی اس کتاب کے شمولات سے خائف ہیں۔

سراج الامۃ امام الائمہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی فن حدیث میں امامت پر یہ ایسی محققانہ تالیف ہے جو حضرت شیخ الحدیث کے پچاس سالہ علمی تجربات کا نچوڑ ہے محض (154) صفحات پر مشتمل یہ کتاب جسے مرکز تحقیقات اسلامیہ نے 2003ء میں شائع کیا ہے۔ اپنی اشاعت کے ساتھ ہی تھوڑے ہی عرصہ میں عالمگیر شہرت اختیار کرگئی برصغیر کے نامور علماء و فقہاء و محدثین نے اس سے استفادہ کیا۔

اس کتاب میں حضرت شیخ الحدیث نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی صحابہ سے ملاقات کو ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا ہے۔ کتاب امام اعظم امام المحدثین کا دلچسپ ترین پہلو بعض فنی امور میں حضرت امام اعظم اور حضرت امام بخاری کا موازنہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حدیث شریف کے تحمل و اداء کے سلسلہ میں حضرت امام اعظم کے شرائط امام بخاری سے زیادہ سخت ہیں۔ اس میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ امام اعظم کی مسانید کی تعداد 21 تک پہنچی ہے اور آپؒ کی روایتوں کو کبار محدثین نے اپنی کتابوں میں شامل کیا ہے۔

فن حدیث میں امام اعظم کی امتیازی شان یہ ہے کہ ائمہ اربعہ 7 اصحاب صحاح ستہ اور اس دور کے تمام مجتہدین و محدثین میں صرف امام اعظم کے پاس وحدانیات یعنی وہ روایتیں ہیں جو محض ایک واسطہ سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث نے ثابت کیا ہے کہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے داریت حدیث کے اصول قائم کئے جس کے بغیر مسائل کا استنباط ممکن نہیں۔ پھر آپ نے (83000) مسائل مستنبط فرمائے اور اسی درایت حدیث کو فقہ کہتے ہیں۔

فضیلۃ المحدث حضرت مولانا محمد خواجہ شریف صاحب علیہ الرحمہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نے اس کتاب میں سند عالی سے متعلق ناقابل تردید حقائق کو پیش کرتے ہوئے حضرت امام بخاریؒ کے نام نہاد مویدین کو لاجواب کردیا ہے کہ ائمہ اربعہ اور اصحاب صحاح ستہ میں وہ وحدانیات سوائے امام اعظم کے کسی اور کے پاس ہیں ہی نہیں۔

یہ وہ علمی و تحقیقی موازنہ ہے جو حضرت شیخ الحدیث کی حدیث دانی تفقہ اور مناظرانہ شان کو ظاہر کرتا ہے کئی صدیاں گذر گئیں لیکن اس نوعیت سے کسی نے بھی حضرت امام اعظم کی شان و عظمت کو ظاہر نہیں کیا اللہ نے یہ خدمت و سعادت حضرت شیخ الحدیث کے حصہ میں رکھی تھی اس لئے یہ عظیم کام آپ ہی سے لیا گیا۔

حضرت شیخ کی مزید خدمات کو بیان کرنے سے قبل میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کے اخلاص و للّٰہیت کے بعض پہلوؤں کا یہاں تذکرہ کروں۔ یکم اگست 1966ء کو آپ کا جامعہ نظامیہ میں تقرر عمل میں آیا قبل ازیں آپ دارالعلوم موتمر العلماء مغل گدہ میں بحیثیت مہتمم خدمات انجام دے رہے تھے حضرت مولانا مفتی محمد عبدالحمید صاحب علیہ الرحمہ سابقہ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے آپ کو ترغیب دی کہ آپ جامعہ میں تقرر کے لئے درخواست دیں تب آپ نے جامعہ میں تقرر کے لئے مہتممی کی عظیم خدمات کو خیرباد کہا۔

اس خاکسار نے دفتر انتظامی و شعبہ تدریس جامعہ نظامیہ میں 1966ء کا ریکارڈ بمشکل تمام تلاش کیا اس موقع پر حضرت شیخ الحدیث نے تقرر کے لئے جو درخواست دی تھی وہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے اور یہ درخواست میرے اس پورے مقالہ کا ماحصل ہے۔ ملاحظہ ہو۔

’’بخدمت شریف حضرت شیخ الجامعہ صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

خارجا مسموع ہوا ہے کہ جامعہ نظامیہ میں ایک تدریسی جائیداد تقرر طلب ہے احقر جامعہ کا ایک قدیم طالب علم ہے اور فی الوقت دارالعلوم موتمر العلماء مغل گدہ میں بحیثیت مہتمم تدریس فرائض انجام دے رہا ہے۔

اگر جامعہ میں خدمت تدریس کا موقع دیا جائے تو قطع نظر مشاہرہ مادر علمی کی خدمت کو ترجیح دے گا۔

المرقوم 11جولائی 1966ئ‘‘

حاضرین محترم!

قطع نظر مشاہرہ کے الفاظ پر غور کیجئے اور اندازہ کیجئے کہ آپ کے اندر کس قدر اخلاص و للّٰہیت اور شان استغناء ہے۔ دراصل دارالعلوم موتمر العلماء میں آپ کو کل (150) روپے مشاہرہ حاصل ہوتا تھا اور جامعہ نظامیہ میں آپ کو تقرر (75) روپے ماہوار ہوابتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر جامعہ کے کسی استاذ کو سرکاری ملازمت کا موقع ملا تو انہوں نے جامعہ سے استعفیٰ دے دیا  تب حضرت مولانا مفتی عبدالحمیدؒ نے یہ جملہ کہا تھا کہ بعض لوگ بڑی تنخواہ کے لئے جامعہ کی ملازمت کو خیرباد کہہ رہے ہیں اور بعض لوگ جامعہ کے لئے بڑی تنخواہ کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔
بہرحال جامعہ کی موجودہ ترقی انہیں محسنین کی مرہون منت ہیں۔

حضرت شیخ الحدیث نے مدارس کے احیاء و قیام کے سلسلہ میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ دارالعلوم دینیہ بارگاہ بندرہ نوازؒ کا احیاء آپ کا کارنامہ ہے کہ آپ نے شہر گلبرگہ میں چھ ماہ قیام کرکے اس قدیم اور تاریخی ادارہ کا احیاء عمل میں لایا جس کا فیضان آج تک جاری ہے۔

دارالعلوم اننت پور کے بانی بھی آپ ہی ہیں جو آج ایک ایکڑ اراضی پر کام کررہا ہے آپ نے 1961ء میں تین بچوں کے ذریعہ ایک درخت کے نیچے اس کو قائم کیا تھا حضرت مولانا حکیم محمد حسین صاحب ؒاس کے صدر تھے۔ حضرت شیخ الحدیث نے اخراجات مدرسہ کی پابجائی کے لئے ایک اسکیم بنائی تھی کہ اننت پور میں ہر دکان سے روزانہ صرف 10 پیسے لئے جائیں۔ اس طرح آپ نے حضرت شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقیؒ کے وطن قندھار میں مدرسہ قائم کیا اس کے علاوہ نندیال کرنول ویل گوڑہ اور پتہ نہیں کہاں کہاں مکاتب اسلامیہ کو قائم فرمایا۔

المعہد الدینی العربی کو 1405ھ میں محض 10 طلبہ سے ایک کرایہ کی عمارت میں قائم فرمایا آج یہ ادارہ ہندوستان بھر میں دینی علمی شناخت رکھتا ہے اور اس کا شمار ریاست کے ممتاز اداروں میں ہوتا ہے۔ جس میں جامعہ نظامیہ کے 30 فارغین تدریس خدمات انجام دے رہے ہیں اور اندرون و بیرون طلبہ کی تعداد 500 سے متجاوز ہے۔ اس طرح حضرت شیخ الحدیث نے اللجنۃ الدینیہ کے نام سے 70 کی دہائی میں ایک ادارہ قائم کیا جس کے ذریعہ کئی مفید علمی و تحریکی خدمات انجام دی گئیں اسی کے تحت اہل خدمات شرعیہ کا تلگو زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

حضرت مولانا مفتی عبدالحمیدؒ سابق شیخ الجامعہ کی سرپرستی میں مجلس علمیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے ذریعہ بھی دعوت الی اللہ مسلمانوں کی اصلاح اور علماء کی تربیت وغیرہ کے امور انجام دیئے گئے۔ آپ نے مختلف مساجد میں حدیث و فقہ کے دروس کے ذریعہ بھی عامتہ المسلمین کی خدمت انجام دی مسجد سنگ پتلی باؤلی جامع مسجد قادریہ فرسٹ لانسر مسجد جعفری صنعت نگر اور مسجد چیونٹی شاہ میںآپ کے دروس حدیث و فقہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔

جامعہ نظامیہ کی 148 سالہ تاریخ میں شاید ہی کوئی شخصیت ہو جنہیں اتنے طویل عرصہ تک جامعہ کی خدمات کا موقع حاصل ہوا ہو۔ یکم اگست 1966ء سے 2018ء تک نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہوتا ہے اس طویل عرصہ میں جامعہ کی ہمہ جہت ترقی میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔جولائی 1988ء میں شیخ الادب قدیم کے عہدہ پر آپ کو ترقی دی گئی۔ بعدازاں 13فروری 1993ء کو شیخ الحدیث کے باوقار عہدہ پر خدمات کا ایک تسلسل ہے جو جاری ہے۔

اس طویل عرصہ میں آپ نے صرف تدریسی طور پر ہی جامعہ کی خدمت انجام نہیں دی بلکہ مالیہ کے استحکام میں اہم رول نبھایا جامعہ میں چرم قربانی کی موجود منظم تحریک آپ کی رہین منت ہے۔ اس کے علاوہ عرب دنیا سے مراسم بھی آپ کے منجملہ برکات سے ہے آپ ہی نے عرب علماء کو اپنے علم و فضل سے متاثر کیا کویت میں آپ نے جلیل القدر عرب علماء سے علمی موضوعات پر مباحث فرمائے۔

مفکراسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے ہمراہ جرمنی میں بخاری شریف کا بمشکل توسیعی خطاب درس دیا۔ سال 2013ء میں مدینہ منورہ کے فاضل علماء کی ایک جماعت جب بخاری شریف کے درس کے لئے ہندوستان کے مختلف علماء سے استفادہ کرتے ہوئے حیدرآباد پہنچی اور وہ حضرت شیخ الحدیث کے آگے زانوئے ادب طئے کئے تو آپ کے علمی و تحقیقی درس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ مکمل بخاری شریف ختم کروانے کی خواہش کی چنانچہ انہوں نے آپ کو عمرہ و زیارت کی دعوت دی اور مکہ مکرمہ میں درس بخاری کا آغاز ہوا اور حرم نبوی میں بخاری شریف کی تکمیل عمل میں آئی۔

اس تحریر میں یہ تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جامعہ نظامیہ کے علماء و فارغین ہمیشہ مسلک اہل سنت جماعت کے فروغ میں سرگرداں رہے ہیں‘ علماء جامعہ نظامیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ برصغیر کے مسلمان اسی مسلک حق سے جڑے رہیں اور یہ مسلک عام سے عام ہوتا رہے تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام پائے۔

مسلک اہل سنت کے فروغ کی اسی خواہش کے پیش نظر جامعہ نظامیہ کے علماء نے غیر نظامی اداروں کی خدمات کو فراغ دلی کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا اور ہر طرح کی عصبیت سے بالاتر ہوکر انہیں اپنی مجلسوں میں یاد رکھا۔

اس کی مثال یہ ہے کہ حال ہی میں بریلی کے مشہور و معروف عالم دین مولانا اختر رضا خان قادریؒ کا انتقال ہوا تو علماء جامعہ نظامیہ نے ان کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا‘ ان کے لئے دعائے مغفرت کی اور اخبارات میں تعزیتی پیغامات روانہ کئے۔ اس کے برخلاف حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کا وصال ہوا تو اپنے آپ کو اہل سنت کے علمبردار کہلوانے والوں کی جانب سے ایک تعزیتی پیغام بھی نہیں آیا۔

تعصب اور تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ ان کے کسی ایک صاحبِ حیثیت عالم نے تعزیت و خراج عقیدت کے چار سطر نہیں لکھے۔ ایسے افراد کس طرح مسلک اہل سنت کو فروغ دے سکتے ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کرپاتے ۔

اِدھر سابق میں علامہ مدنی میاں نے حیدرآباد میں علم غیب کے موضوع پر خطاب کیا تو دیوبندی اصحاب ان کی تقریر کا مذاق اڑانے لگے اور ان کے مشمولات اور عقلی دلائل کا رد کرنے لگے تو حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی رگ  سنیت پھڑک اٹھی اور آپ کی حمیت نے آپ کو مجبور کیا کہ باطل عقیدے کا رد ناقابل تردید دلائل سے کیا جائے پھر آپ نے نور غائب نامی کتاب لکھ کر ان کے تمام اعتراضات کا علمی و مسکت جواب دیا‘ اِس طرح حضرت مدنی میاں کی ساکھ رہی اور باطل کو رسوا ہونا پڑا۔

                       الغرض

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے